ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
اپنے مذاق پر ڈھال لیا کرتے تھے یہ بھی آزادی کے مدعی تھی جیسے جن درویش کا اوپر قصہ آیا ہے غرض وہ یہ دعوی کرتے تھے کہ ہر مسئلہ کی دلیل حدیث سے دیتے ہیں اپنی اسی حریت کی دلیل یہ حدیث دیتے تھے ـ حضورؐ سے پوچھا گیا من معک آپ نے ارشاد فرمایا حرو عبد اور تفسیر یہ کرتے تھے کہ میرے ساتھ وہ ہے جو " حر ،، بھی ہو اور عبد" بھی ہو یعنی جس میں دونوں صفتیں ہوں حالانکہ وہاں دونوں لفظوں سے الگ الگ دو صاحب مراد ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما یا یہ مراد ہے کہ میری بعث سب کے لئے عام ہے اس سے کہ حر ہو یا عبد ـ تیسرے معنی انہوں نے گھڑے ـ جب طبیعت میں کجی ہوتی ہے تو مؤیدات بھی تلاش کر لئے جاتے ہیں ـ پہلے معنی کی تائید کے لئے یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے ـ تلک ایات الکتب و قرآن مبین ایک جگہ یہ ہے تلک ایات القرآن و کتب مبین دونوں جگہ صفت کا عطف صفت پر ہے اسی پر حر و عبد کو محمول کیا حالانکہ وہاں مقامی قرینہ اس سے بالکل آبی ہے ـ انکا بھی یہ عقیدہ تھا کہ ایک مقام سلوک میں ایسا ہے جہاں پہنچ کر انسان مکلف نہیں رہتا اور دلیل یہ ہے کہ نسائی کتاب الاشربہ میں حضرت ابو الدرداء کا قول ہے ماابالی ان اشرب الخمرام عبدت ھذہ الساریۃ اور اس کی تفسیر ؎ یہ کی ہے کہ میں ایسے مقام پر ہوں کہ شراب بھی پی لوں تو پرواہ نہیں ہے ـ اور شرک بھی کر لوں تو پرواہ نہیں ہے یہ ہے ما ابالی کی تفسیر حالانکہ خود نسائی نے اور محدثین نے اس کو کتاب الاشربہ میں داخل کیا ہے ، اور حرمت شراب پر استدلال کیا ہے اور سب نے اسی معنی کو قبول کیا ہے تفسیر مخترع میں تو اجماع کا خلاف بھی کیا ـ مجھے ہر قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے اس سے اکثروں کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے ـ 1؎ جمع کنندہ عرض کرتا ہے کہ حدیث شریف کے معنی جو سب علما کرتے ہیں یہ ہیں کہ میں پروا نہیں کرتا کہ شراب پیوں یا شرک کروں یعنی شراب پینے اور شرک کرنے کا حرام ہونا یکساں ہے اور قطعی دلیل اس کی یہ ہے کہ شرک تو کسی حال میں جائز ہو ہی نہیں سکتا ـ