ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
کا اس وقت کا مقولہ جبکہ وہ اور شیاطین آسمان پر جاتے تھے تو ان پر ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے تھے نقل فرماتے ہیں " وانا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبھم ،، یعنی ہم نہیں جانتے کہ اس نئے انتظام سے کیا ظہور پذیر ہو گا اس سے اہل زمین کو ضرر پہنچے گا یا اللہ تعالی ان کو نفع پہنچانا چاہتے ہیں ـ بالکل اسی طرح ان تحریکات میں بھی دونوں احتمال ہیں گو جنات کا یہ مقولہ محل خیر میں تردد کا تھا اور میرا محل شر میں تردد کا ہے مگر میرا خیال وہی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں میری دلی تمنا اور دعا ہے کہ اللہ تعالی حکومت عادلہ مسلمہ قائم فرما دے اور میں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں ـ میں نے عادلہ کی قید اس واسطے لگائی کہ سلطنت مسلمہ تو بحمدہ تعالی آج کل بھی متدد جگہ ہے ـ مگر عادلہ نہیں بلکہ سب کی حالت بے راہی کی ہے ـ امور شرعیہ کی پابندی نہیں موجودہ مسلم سلطنتوں میں نجدیوں کی سلطنت غنیمت سمجھی جاتی تھی ـ مسلمانوں کو ان سے بہت توقعات تھیں ـ کیونکہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن و حدیث پر عامل ہیں ـ مگر انہوں نے ایسی لٹیا ڈبوئی ہے کہ خدا کی پناہ عیسائیوں کو حجاز کی سر زمین مقدس میں داخل کر لیا ـ اور ایک طویل مدت کے لئے ان کو ٹھیکہ دیدیا ہے ابن سعود نے اور یہ سب کچھ روپیہ کی وجہ سے کیا گیا ہے ـ توکوں کے زمانہ میں کبھی ایسا نہ ہوا حالانکہ وہ بیچارے قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے مدعی بھی نہ تھے ـ اس ٹھیکہ کے انجام کی یقینی طور پر تو خبر نہیں مگر آثار اور حالات حاضرہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عرب کے بدیوں کے ایمان کا سخت خطرہ ہے کیونکہ عرب پہلے ہی ایک ملفس قوم ہے خصوصا اعراب (بدوی) تو حد درجہ مفلوک الحال اور تنگدست ہیں اور آج کل تو ان کے افلاس میں اور اضافہ ہو گیا کیونکہ وہ پہلے حجاج کو اوںٹ کرایہ پر دے دے کر کچھ کما لیتے تھے ـ اب موٹروں نے اس سلسلہ کو بھی قریب الختم کر دیا ہے ـ لوگ کہتے ہیں کہ بڑا آرام ہے بڑی راحت ہے یہ خیال نہیں کرتے کہ آرام و راحت صرف مسافروں کو ہے اور بیچارے سارے اعراب تباہ برباد ہو رہے ہیں یہ کاک آرام ہے کہ معد و دے چند تو راحت حاصل کریں اور لاکھوں خاک میں مل جائیں تو اب اندارہ کیجئے کہ ایسے مفلس افراد جن کو پیٹ بھر کھانے کو نہیں ملتا ہو ستر ڈھانکنے کو کپٹرا میسر نہیں آتا ہو جب عیسائیوں جیسی سرمایہ دار جماعت ان میں پہنچ جائے گی ان کو نوکر رکھے گی ان سے مزدوری