ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
اسی سلسلہ میں فرمایا میں نے مولانا فیض الحسن صاحب کے داماد سے سنا ہے کہ ان کی وفات کے بعد مسلسل ایک ماہ تک اس جگہ سے جہاں وفات ہوئی تھی بہت عمدہ خوشبو آتی رہی ـ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب سے کسی نے اسکا تذکرہ کیا تو فرمایا مجھے معلوم ہے کہ لڑکپن سے ہر شب جمعہ میں فجر تک درود شریف پڑھا کرتے تھے ایک لمحہ کو نہ سوتے تھے اور اخیر عمر تک اس معمول کو نبھایا ـ مولانا فیض الحسن صاحب سب سے بے تکلف تھے ـ حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کے والد شیخ اسعد علی صاحب کھیتی کیا کرتے تھے ـ آپ نے ایک دفعہ کہا ارے اسد علی کے بیٹے تجھے مولوی کس نے کر دیا ـ تیرے پاس تو دو بیل ہوتے اور ان کے کندھوں پر تیرے ہاتھ ہوتے اور جنگل میں تک تک بر بر کرتا پھرتا حضرت مولانا نے فورا ہی ایک ہاتھ مولوی فیض صاحب کے کندھوں پر رکھ کر فرمایا کہ ایک تو مل گیا ہے دوسرے کی تلاش میں ہوں وہ بھی مل جاوے تو یہی کام کیا کروں گا ـ مولانا فیض الحسن صاحب بہت ذہین تھے مگر اس وقت کوئی جواب نہ بن پڑا اور خاموش ہو گئے ـ حضرت مولانا ہی کا کام تھا کہ ان کو خاموش کر دیا ورنہ وہ کسی سے چپ ہونے والے نہ تھے ـ ان بزرگوں کا اختلاف بھی اللہ تعالی کے واسطے سے تھا باقی ہنسنا بولنا مزاح باہم خوب رہتا تھا ـ مولانا فیض الحسن صاحب بے باک تو تھے ہی ـ حضرت حاجی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت آپ سے بیعت ہونے کو جی چاہتا ہے مگر دو شرطیں ہیں اول یہ کہ کبھی خط و کتابت نہ کروں گا ـ دوسری شرط یہ ہے کہ نذرانہ کبھی نہ دوں گا دیکھئے پیر سے بھی ایسی گفتگو کی ـ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا جتنی شرطیں کرو سب منظور ہیں ـ مولانا فیض الحسن صاحب حضرت کے عاشق تھے اور عشاق کے لئے ظاہری ادب کی ضرورت نہیں رہتی ہے ـ عارف رومیؒ اسی کے متعلق فرماتے ہیں ـ گفتگوئے عاشقاں درکار رب جوشش عشق ست نے ترک ادب با ادب ترنیست زوکس جہاں با ادب ترنیست زوکس در نہاں شعراء محبوب کو ظالم ستمگر جفا کار ـ قاتل سفاک وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں کیا یہ بے ادبی ہے عاشق صادق ظاہرا کچھ معاملہ کرے مگر بوقت ضرورت جان دینے والا اس کے سوا کوئی دوسرا