ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
سنیں تو آگ بگولا ہو گیا لیکن پیر کے ادب سے خاموش رہا اور جلتا بھنتا مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر خاموش بیٹھ گیا ـ مرزا صاحب نے پوچھا تو کہنے لگے کہ حضرت بیوی صاحبہ نے آپ کی شان میں جو گستاخیاں اور بے ادبیاں کی ہیں جی چاہتا تھا کہ ان کو قتل کر دوں مگر اس خیال سے کہ حضرت سے نسبت ہے اور حضرت ہی کی بیوی ہیں میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ـ مرزا صاحب نے فرمایا یہ میری بڑی محسنہ ہیں ـ میں کچھ بھی نہیں تھا ـ ہر کمال سے عاری تھا ـ مجھ کو جو کچھ دولت ملی ہے انہیں کا صدقہ ہے ـ میں نے ان کی بدعنونیوں بد مزاجیوں اور تکلیفوں پر صبر کیا ـ اللہ تعالی نے مجھ کو اسکے صلہ میں گو نا گوں نعمتوں سے مالا مال فرمایا ـ مرزا صاحب کے انتقال کا جب وقت قریب آیا تو ان کی بیوی سے فرمایا کہ تم قاضی ثناء اللہ صاحب کے یہاں پانی پت چلی جانا ـ تمہارا نباہ بجز قاضی صاحب کے اور کہیں نہیں ہو سکے گا ـ قاضی صاحب مرزا صاحب کے خلیفہ اعظم تھے ـ چنانچہ انتقال کے بعد وہ پانی پت چلی آئی تھی میں جب پانی پت گیا تو وہاں کے ایک رئیس کی والدہ نے جو قاضی صاحب کی اولاد میں تھیں مجھ کو کچھ پوچھنے پاچھنے کو بلایا تھا ـ مکان میں ایک کوٹھری کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ مرزا صاحب کی بیوی دہلی سے آ کر اس میں رہا کرتی تھیں ـ بچیوں کو کلام اللہ اور مسائل ضروریہ کی حسبۃ اللہ تعلیم دیا کرتی تھیں ـ بڑی عبادت گزار تھیں ـ اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ بہت نیک اور عابدہ تھیں ـ باقی بد مزاج ایک دوسری چیز ہے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک لکھنوی بزرگ کی بیوی بھی بہت بد خو اور تیز مزاج تھیں ـ ایک دفعہ انہوں نے بیوی سے کہا کہ تم بہت بد قسمت ہو کہ مجھ سے کچھ نفع حاصل نہیں کرتیں ـ حالانکہ ایک بڑی مخلوق اللہ کے فضل سے نفع اٹھا رہی ہے ـ بیوی نے جواب دیا میں کیوں بد قسمت ہوتی بد قسمت تم ہو کہ تم مجھ جیسی بیوی تند ملی میں تو بہت خوش قسمت ہوں کہ تم جیسا شوہر ملا ـ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معتقد تو یہ بھی تھیں مگر نری اعتقاد سے ـ جب باہم بے تکلفی ہو مزاج نہیں بدلا کرتا ان واقعات کے بعد حضرت اقدس سے ایک مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ اس قسم کی بد مزاجی سے حبط اعمال تو نہیں ہوتا ہے ـ فرمایا کہ ایسی چیزیں جن سے اعمال خیر حبط ہو جاتے ہیں صرف کفر و شرک ہیں اور کسی معصیت سے ایسا نہیں ہوتا ـ بد مزاجی تو معمولی شے ہے ـ بعض