ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
ہے ـ اور اپنے آپ کو تمام قواعد سے مستثنی سمجھتا ہے کہ سب ہمارے غلام ہیں جو چاہیں کریں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ـ مالی گاؤں بمبئی کے قریب ایک جگہ ہے ـ وہاں کے ایک تاجر چرم جو مجھ سے بیعت تھے مع اپنے ایک رفیق کے تھانہ بھون آئے ـ میں نے پہچانا نہیں اس لئے دریافت کیا مگر بالکل خوموش رہے میں نے ان کے رفیق سے پوچھا انہوں نے کہا کہ یہ تو آپ کا نام سنکر اپنے حواس میں بھی نہیں رہتے ـ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ گر پڑتے ہیں ـ غنمیت ہے کہ اس وقت بیٹھے تو ہیں ـ بولتے تو کیا ـ خیر رفیق نے تعارف کرا دیا ـ اس کے بعد ان تاجر صاحب نے دس روپے کا نوٹ پیش کیا ـ میں نے کہا کہ آپ سفر میں ہیں ـ یہاں دینا مصلحت نہیں ممکن ہے کہ آپ کو کوئی ضرورت پڑ جائے ـ ایسا ہی اصرار ہے تو مکان جا کر بشرط گنجائش بھیج دینا ـ انہوں نے زائد اصرار کیا تو میں نے خیال کر کے قبول کر لیا کہ کہیں بے ہوش ہو کر نہ گر پڑیں جو پریشانی کا باعث ہو ـ ظہر کی نماز کے بعد انہوں ایک مسئلہ پوچھا میں نے بتا دیا اس پر آپ نے معارضہ کیا کہ فلاں کتاب میں تو سکے خلاف لکھا ہے ـ میں نے کہا کہ اگر تم کتاب کے مسئلہ کو صحیح جانتے تھے ـ تو مجھ سے کیوں پوچھا اور اگر مجھ پر اعتماد ہے تو معارضہ کیوں کیا ـ اس کے بعد میں نے غور کیا یا تو یہ بالکل ایسے خوموش تھے کہ منہ سے آواز بھی نہیں نکلتی تھی ـ بات کا جواب بھی نہیں دیتے تھے یا اب اس بیباکی سے گفتگو کرنے لگے اس کی کیا وجہ ہے ـ معا خیال آیا کہ یہ سب دس روپیہ کی برکت ہے ـ تاجر صاحب نے خیال کیا کہ دس روپیہ دے کر مجھ کو خرید لیا اور تمام قواعد سے مستثنی ہو گئے ـ میں نے وہ نوٹ نکال کر واپس کیا اور کہا کہ اب خوب جی کھول کر مسائل پوچھئے اور اعتراضات کیجئے مجھے کچھ گرانی نہ ہو گی ـ اس کے بعد حسب سابق وہ پھر گم ہو گئے اور ایک مسئلہ بھی نہ پوچھا وہ سارا زور نذرانہ کی وہ سے تھا ـ روپیہ کو لوگ خدا جانے کیا خیال کرتے ہیں ـ ایک اور واقعہ یاد آیا کہ ـ کرسی ضلع پارہ بنکی کے قریب ایک موضع ہے انواری وہاں کے ایک صاحب میرے مرید تھے ـ اتفاقا میرا کرسی جانا ہوا اور لوگ ملے مگر وہ ملنے نہیں آئے ـ بعض لوگوں نے ان سے کہا کہ تمہارے پیر آئے ہیں تم ملنے نہیں گئے ـ شاید انکو خیال ہو (حالانکہ یہ گمان بالکل غلط تھا)