ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
|
کتابت سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا زبانی گفتگو کر لیں گے ـ مولانا اصل میں ایک برات میں رامپور آئے تھے وہاں خیال ہوا کہ تھانہ بھون چلیں ـ حضرت کو اس گفتگو کے ارادہ کی اطلاع ہوئی تو منع فرما دیا ـ حافظ محمد ضامن صاحب بہت تیز تھے فرمایا ـ نہیں جی گفتگو کرو مگر حضرت کے فرمانے کے بعد کیسے کرتے ـ پھر یہ داعیہ ہوا کہ بیعت کر لو ـ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ ہوا کہ طور پر تشریف لائے کس ارادہ سے اور مل گئی کیا دولت اور مولانا محمد قاسم صاحب کو اس کے قبل بیعت کر لیا تھا ـ مگر مولانا گنگوہیؒ نے کئی روز بعد درخواست کی اس لئے ان کی بیعت کئی دن بعد ہوئی ـ اور یہ بھی فرمایا کہ کچھ روز اور دیکھ لیا ہوتا ـ بیعت میں حضرت طالب سے یہ کہلواتے تھے کہ کہو بیعت کی میں نے امداد اللہ سے ـ سب یوں ہی کہہ دیتے تھے ـ مگر حضرت گنگوہیؒ نے اس طرح فرمایا بیعت کی میں نے حضرت مرشد مولانا امداد اللہ صاحب سے تو فرمایا تم سمجھے ـ مولانا چالیس روز حضرت کی خدمت میں رہے ـ چلتے وقت حضرت نے فرمایا مجھ کو جو دینا تھا دیدیا اگر کوئی اللہ کا نام پوچھے بتا دیا کرو ( جس کا حاصل بیعت و تلقین کی اجازت دینا تھا ) مولانا بہت صاف تھے عرض کیا نا حضرت میں کسی کو مرید نہیں کروں گا مجھ میں ہے ہی کیا تیز ہو کر فرمایا ہم جانتے ہیں یا تم ، مولانا ادب سے خاموش ہو گئے پھر جب گنگوہ پہنچے تو ایک بی بی تھیں مسماۃ کلثوم (غالبا یہی نام تھا) انہوں نے مولانا سے بیعت ہونے کی درخواست کی مولانا نے عذر فرما دیا ـ اتفاق سے اس زمانہ میں حضرت بھی گنگوہ تشریف لے آئے ان بی بی نے حضرت سے شکایت کی کہ انہوں نے مجھ کو بیعت نہیں کیا حضرت نے مولانا سے فرمایا کیوں صاحب ہم نے کیا کہا تھا ـ عرض کیا اب تو آپ تشریف رکھتے ہیں آپ ہی کر لیجئے فرمایا یہ بھی کوئی بات ہے مجھ سے عقیدت نہیں رم سے ہے اچھا ہمارے سامنے کرو ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ حضرت نے جو مولانا سے یہ فرمایا تھا کہ جو کچھ دینا تھا وہ دے دیا اور اس پر مولانا نے عرض کیا میں تو ویسا ہی ہوں اور حضرت نے فرمایا تم جانتے ہو یا ہم ، اس کی حقیقت ایک مثال سے سمجھئے کہ مریض جب اچھا ہے جب طبیب کہہ دے کہ تو اچھا ہو گیا خواہ مریض کی سمجھ میں نہ آوے اس لئے تو ایک حکیم فرماتے ہیں ـ