ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
ہوتا ہے تو جس شیخ کے مواعظ و ملفوظ میں وہ علاج دیکھا ہے اگر اس شیخ سے پھر اسی مرض کا علاج دوبارہ دریافت کیا گیا تو ممکن ہے کہ شیخ کی سمجھ میں اس وقت اس مرض کا علاج کوئی دوسرا آئے تو شیخ کے کلام میں بظاہر اس سائل کو تعارض کا شبہ ہو گا اور طالب چونکہ حقیقت سے واقف نہیں اس لئے شیخ کے اس فعل پر طالب کے دل میں ایک گونہ اعتراض پیدا ہو گا کہ پہلے یوں فرمایا تھا اب یوں فرماتے ہیں اس اعتراض سے اندیشہ ہے کہ اس کو اپنی مربی کے ساتھ اعتقاد میں ضعف ہو جائے اور اس ضعف اعتقاد کے سبب سے وہ اس سے استفاضہ میں کمی کر دے جس کا نتیجہ طالب کے لئے فیوض باطنی سے محرومی ہو ـ (104) فیوض باطنی سے محرومی فرمایا اس طریق باطنی میں جب کوئی شیخ و مربی اپنے مرید یا متعلق کی تربیت باطنی کرتا ہے تو اس وقت اگر اس مرید و طالب سے کوئی فعل ایسا ظاہر ہو کہ جو مذموم اور قابل اصلاح ہو تو وہ شیخ اس مرید کے اس مرض کی اصلاح کرتا ہے اور اس فعل پر اس کو تنبیہ کرتا ہے ـ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس تنبیہ کے اندر اس مصلح اور مربی سے غلطی بھی ہو جاتی ہے ـ اور اس غلطی کی صورت بعض اوقات یہ ہوتی ہے کہ اس تنبیہ کے اندر مصلح کو حد سے تجاوز ہو جاتا ہے ـ اور اس تجاوز عن الحد کا سبب یہ ہوتا ہے کہ مثلا کوئی شیخ ہے اس کو مختلف طالبین کی طرف سے اتفاق سے ایک ہی وقت میں مختلف اور متعدد اذیتیں پہنچیں ـ جس سے اس کا دل خستہ اور زخمی ہو رہا تھا کہ اسی وقت کسی شخص نے اس کو پھر کوئی اذیت پہنچائی تو گو وہ اذیت جو اس شخص نے شیخ کو پہنچائی ہے فی نفسہ خفیف ہو مگر چونکہ شیخ کے قلب پر ابھی چوٹ لگ چکی تھی جس سے اس کا قلب پہلے سے ہی زخمی ہو رہا تھا کہ اسی وقت اس کو پھر کوئی جدید تکلیف پہنچی تو گویا چوٹ پر چوٹ لگی تو ایسی حالت میں اس تکلیف کا اثر اگرچہ وہ تکلیف فی نفسہ خفیف ہی کیوں نہ ہو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کسی سخت سے سخت اذیت کا ہوتا اس لئے اس متاذی سے ایسے وقت میں اس ایذا دہندہ کو جواب دینے میں یا اس ایذا دہندہ سے انتقام لینے میں بعض مرتبہ حد سے تجاوز ہو جاتا ہے ـ تو اب یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ اس مصلح اور شیخ کو اس مرید سے معافی مانگنا چاہئے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مصلح کو اور شیخ کو یہ نہ چاہئے کہ طالب سے صریحا معافی چاہے کیونکہ گو اس کے اندر شیخ کوئی نقصان نہ ہو بلکہ شیخ کی تو اس میں اور خونی ہو گی شیخ کے اس فعل سے اس طالب کا نقصان ہے اور اس طالب کے بگڑ جانے