ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
سے بدلہ لے اور جیسے میں نے تجھے مارا ہے اسی طرح تو مجھے مارا ـ چناچہ بعضے بے حیا لڑکے ان کو مارتے بھی ـ احقر ناقل ملفوظ ہذا عرض کرتا ہے کہ ایک بار ایک شخص نے عرض کیا کہ بعض مرتبہ مجھے اپنے ملازمین پر ڈانٹ ڈپٹ میں حد سے زیادتی ہو جاتی ہے تو کیا میں اپنے ملازمین سے اپنی اس خطا کی معافی مانگ لیا کروں ـ حضرت حکیم الامت دام ظلہم العالی نے ارشاد فرمایا کہ نہیں اپنے ملازمین سے صریحا معافی مانگنا مناسب نہیں کہ اس سے ان کے گستاخ ہو جانے کا اندیشہ ہے البتہ جب زیادتی ہو جایا کرے تو اس کے بعد ان کو اپنے برتاؤ سے خوش کر دینا چاہیے البتہ جب وہ ملازم تمہاری ملازمت سے برطرف ہو کر جانے لگے تو اس وقت اس سے زبانی طور پر بھی کہا سنا معاف کرا لے ـ اور یہ سب اجتہادی احکام ہیں اگر اس کے خلاف تحقیق ہو اس پر عمل کیا جاوے ـ ( 105 ) طریق باطن ہی سب سے اہم چیز ہے فرمایا اس طریق باطن میں سب سے اہم چیز نفس کی اصلاح ہے ـ یعنی خواہ کوئی مرید ہو یا شیخ کسی شخص کو اپنے نفس کی طرف سے غافل نہ ہونا چاہیے ـ بلکہ جیسے ایک مرید پر ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرے اسی طرح شیوخ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی دیکھ بھال کرتے رہیں ـ اس طریق میں یہ اصلاح نفس ایک ایسا کام ہے کہ جو ساری عمر کا دھندہ ہے ـ مگر افسوس ہے کہ اول تو آج کل شیوخ اپنے آپ کو اصلاح سے مستغنی سمجھتے ہیں الا ماشاءاللہ اور جن شیوخ کو اپنے نفس کی نگرانی کی طرف کچھ توجہ بھی ہوتی ہے تو ان کے اندر ایک دوسری کمی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے متعلق کتنا بڑے سے بڑا اشکال پیش آئے اور وہ اشکال ان سے پورے طور پر حل بھی نہ ہو سکے مگر پھر بھی خود ہی اپنی اس حالت کے متعلق کچھ تجویز کر کے اسی کو کافی سمجھ لیتے ہیں اور پر قناعت کر لیتے ہیں ـ اور کسی دوسرے پر اس اشکال کو ظاہر نہیں کرتے اور اس سے اس اشکال کو حل نہیں کرتے ـ حالانکہ طب ظاہری میں ہر شخص جانتا ہے کہ ایک طبیب خواہ کتنا ہی بڑا طبیب ہو مگر اپنا علاج خود نہیں کر سکتا بلکہ وہ خود بیمار پڑے گا تو اپنے علاج کے لئے اس کو کسی دوسرے ہی طبیب کی طرف رجوع کرنا ہو گا ـ بس یہی حال طب یعنی طریق باطنی کا ہے کہ اس کے اندر بھی کوئی شیخ اگرچہ وہ خود کامل ہو مگر اپنی