ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
دیتا ہے احقر نے عرض کردیا پھر ان مولوی صاحب کاتب ملفوظات سے بھی دریافت فرمایا ۔ اس کے بہت دیر بعد احقر حاضر خدمت ہوا تو خاص اہتمام کے ساتھ فرمایا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ ان کو مسئلہ معلوم تھا ۔ میرے پوچھنے پر کہتے تھے کہ میں اس وقت کی اجرت ان دوسرے صاحب سے نہ لوں گا کیونکہ آج ان کے وقت میں یہاں مقابلہ کا کام کیا گیا جسکی اجرت جدا ہوگا نہ وصول ہوچکی ہے ایسے امور میں حضرت اقدس خود بھی غایت درجہ محتاط ہیں اور اپنے خدام کی بھی بہت نگرانی رکھتے ہیں ۔ ( 224 ) حضرت حکیم الامت کی محتاط طبیعت بسلسلہ گفتگو فرمایا کہ میں بعد عشاء ایک بار وعظ کہہ رہا تھا کہ ایک شخص نے وعظ سے فارغ ہوتے ہی مجھ کو ایک پرچہ دیا اور چلا گیا بعد وعظ میں نے اس کو بلا پڑھے ہوئے دیا سلائی سے جلادیا اس پر احباب نے بہت تعجب کیا کہ بے پڑھے دل کو کیسے چین آیا ۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی بات قابل جواب اور قابل اہتمام ہوتی تو وہ شخص ہی بے جواب لئے کیوں چلا جاتا جب اسی کے نزدیک وہ بات قابل اہتمام نہ تھی تو میں اس کے پڑھنے مین اپنا وقت کیوں خواہ مخواہ ضائع کرتا اس نے تو ایک فضول حرکت کی ہے میں کیوں فضول حرکت کرتا حضرت اقدس کی طبع مبارک فطرۃ ایسی منظم اور با اصول واقع ہوئی ہے کہ فضول کام کے لئے ایک منٹ بھی ضائع کرنا گوار نہیں ہوتا اور اگر کوئی ضروری کام ہوتو بڑی بڑی مشقتیں اٹھا کر اور بہت بہت وقت دے کر اس کو انجام دیتے ہیں اور وقت بے وقت لگ لپٹے رہتے ہیں جب تک کم سے کم وقت میں اس کو انجام کو نہیں پہنچادیتے چین نہیں لیتے ۔ یہ رات دن کا مشاہدہ ہے ۔ فرماتے ہیں کام لے پڑے رہنے سے مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے جی چاہتا ہے کہ جلد سے جلد اس سے فراغت کرکے یکسوئی حاصل کروں ۔ اس تقاضہ کا ایک منشاء یہ بھی ہوتا ہے کہ چاہے پھر توفیق ہو یا نہ ہو لیکن اپنے قلب کو متوجہ الی للہ ہونے کے لئے اپنی طرف سے فارغ تو رکھنا چاہیئے تاکہ اگر کبھی توفیق ہوتو سہولت متوجہ الی للہ ہوسکوں کوئی امر مانع نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ میں گول بات کہنے یا سوال کا جواب جلد نہ دینے سے جھنجھلا اٹھتا ہوں کیونکہ اس سے فراغت قلب برباد ہوجاتا ہے اور خود میں اپنی طرف سے کوئی چھڑیا ایذا کی بات نہیں کرتا لیکن اگر کوئی دوسرا بد تمیزی یا ایذاء کی بات کرتا ہے تو پھر اس کا تحمل نہیں ہوتا کہ میں تو لوگوں کی اتنی رعایت کروں