ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
جب طبعی کے ازالہ کا انسان مکلف نہیں باقی جس محبت کا ازالہ اختیار میں ہے اس کے ازالہ کا انسان مکلف ہوگا اور اسی اختیاری محبت کا نام محبت عقلی ہے ۔ مگر جن لوگوں کے ذہن میں یہ ساری باتیں جمع نہیں ہوتیں اس وجہ سے الگ الگ مذکور ہیں اس لئے ایسے لوگ یہاں تک پہنچے ۔ (171) بزرگوں کی اولاد کا لحاظ کرنے کی ضرورت فرمایا آج کل لوگ ملکہ یاو داشت کو نسبت سمجھتے ہیں جو صرف ذاکر کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور جو معصیت کے ساتھ بھی جمع ہوسکتی ہے حالانکہ نسبت مطلوبہ نام ہے اس لگاؤ اور تعلق کا جو جانبین سے ہو یعنی عبد کی طرف سے حق تعالٰی کے ساتھ اطاعت اور ذکر کا تعلق ہو اور حق تعالٰی کی طرف سے بندہ کے ساتھ رضا کا تعلق ہو یہ ہے نسبت ملطلوبہ ۔ (172) باری تعالی کے علم کی کنہ کسی کومعلوم نہیں ایک مقام پر ایک متفق علیہ بزرگ کے پوتے کے ساتھ علی الاعلان ایسا برتاؤ کیا گیا جس سے ان صاحبزادہ کی اہانت ہوئی ۔ جب حضرت حکیم الامتہ دام ظلہم العالیٰ کو اس کی اطلاع ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ مجھ کو یہ معلوم کرکے ان صاحبزادہ کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا گیا بہت افسوس ہوا ۔ ان صاحبزادہ کی اگرکوئی کوتاہی تھی تو کہ چاہیے تھا کہ ان کو تنہائی میں بلاکر چاہے خوب ڈانٹ لیا جاتا اس میں کچھ حرج نہ ہوا تھانہ اس میں ان کی اہانت تھی باقی علی الاعلان ایسا برتاؤ کرنا مناسب نہ تھا آخر ان بزرگ کا جن کی یہ اولاد میں سے ہیں کچھ تو لحاظ ہونا چاہیے تھا بس جی معلوم ہوا کہ بزرگوں کے محض دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کے قلوب میں بزرگوں کا ادب اور ان سے محبت صرف ان بزرگوں کی زندگی تک رہتا ہے اور ان بزرگوں کی وفات کے بعد ان کی محبت ان کا ادب سب رخصت ہوجاتا ہے میں نے ایک ایسے ہی بزرگ زادہ کو ایک بار بہت ہی سخت اور ناراضی کا خط لکھا تھا مگر باوجود اس کے جس کا دل چاہے وہ اس خط کو ان سے لے کر دیکھ لے کہ ایک بھی لفظ اس خط میں ایسا نہیں ہے جو ان کی شان کے خلاف ہو تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ انہوں نے ایک بار مجھ کو لکھا تھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں میں نے جواب دیا کہ ہان صحیح ہے ۔ لیکن وہ ناراضی ایسی ہے جیسے اگر کسی شخص کی اولاد میں سے کوئی سنکھیا کھالے اور اس لڑکے کی ایسی نازک