ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
البتہ فرق یہ ہوگا کہ یہاں بعض کو خلجان ہے اور وہاں اطمنان ہوگا اور جس کو یہاں ہی اطمنان میسر ہو جائے وہ گویا جنت ہی میں ہے یہ کلام تو کنہ میں ہے باقی اجمالی علم کے لئے اور بہت سی تمثیلات ہیں مثلا آنکھ کھولنے پر جو کہ اختیاری ہے کیا نہ دیکھنے پر قدرت ہے عرض کیا گیا کہ نہیں فرمایا بس اس کو مجبوری کہتے ہیں تو جبر و اختیار جمع ہو گئے غرض اس علم اجمالی سے ہمارے پاس مسکت جواب تو ہیں مگر کنہ معلوم نہ ہونے سے مسقط نہیں ـ ( 86 ) تمنا اور ارادہ میں فرق ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت حق تعالی کا خوف بندہ کے لئے زیادہ انفع ہے یا محبت فرمایا کہ اس کا کوئی حکم کلی نہیں کسی کے لئے محبت انفع ہے اور کسی کے لئے خوف ـ کسی کے لئے شوق ہر شخص کا خدا تعالی سے جدا معاملہ ہے باقی اکثر کے لئے جو چیز زیادہ نافع ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ اس کا مراقبہ کرے کہ اللہ تعالی مجھ کو چاہتے ہیں یعنی اپنی محبوبیت کا مراقبہ ـ یہ تو انفعیت میں کلام ہے باقی کچھ کچھ سب ہی چیزوں کی ضرورت ہے کوئی ایک چیز کافی نہیں جیسے کھانا پکانے کے لئے آگ کی بھی ضرورت ہے ـ پانی کی بھی ضرورت ہے ایسے ہی محبت اور خوف دونوں کی ضرورت ہے غلبہ میں تفصیل ہے اسی سلسلہ میں ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت حق تعالی سے تو ہر ایمان والا تعلق رکھنا چاہتا ہے تو محبت عام ہوئی ـ فرمایا کہ چاہنے کے دو ترجمہ ہیں ایک تمنا اور ایک ارادہ اگر محض تمنا ہے تو اس کے معنی تو جی چاہنے کے ہوئے اور مطلق جی چاہنا کام نہیں آ سکتا اور ایک یہ کہ جی چاہنے پر اس مقصود کے اسباب کو شروع کر دیا اس کو ارادہ کہتے ہیں ـ کام بنانے والی چیز یہ ہے اور محبت مطلوبہ یہی ہے اور آج کل اکثر میں محض تمنا ہی تمنا ہے اور طریق میں یہ محبت مطلوبہ نہیں ـ بعضے بدبخت اس تمنا سے بھی محروم ہیں ان سے تمنا ہی والے محبت سے قریب ہیں ـ اسی سلسلہ میں ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت چاہنے کے حضرت والا نے دو ترجمہ فرمائے ایک تمنا اور ایک ارادہ ـ اور یہ بھی فرمایا کہ محض تمنا سے کام نہیں چلتا ارادہ سے چلتا ہے تو ارادہ کس طرح کرے ـ فرمایا کہ ارادہ فعل اختیاری ہے جیسے اس کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کر کے دیکھئے اور کیجئے عرض کیا کہ ارادہ کے سہل ہونے کی کیا صورت ہے ـ فرمایا کہ یہ مراقبات سے سہل ہو جاتا ہے ـ عرض کیا کہ کس چیز کا مراقبہ ـ فرمایا کہ مختلف طبائع کے