ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
سے حاصل ہوا تھا ۔ بس پھر جواب ندارد ۔ سوائے خفگی کے کہ بزرگوں کا ایک معمول چلا آرہا ہے تم اس کے منکرہو ۔ مجھے ایسوں پر غصہ بھی نہیں آتا ۔ سمجھتا ہوں کہ معذرو ہیں بے چارے ۔ دوسروں کے بگاڑے ہوئے ہیں ۔ غصہ تو کیا آتا بلکہ رحم آتا ہے ۔ معقول سخصے ان کو آتا ہے پیار پر غصہ مجھ کو غصہ پہ پیار آتا ہے کسی نے میرے ایک وعظ میںدیکھا تھا کہ لوگ بزرگوں سے فرمائش کرتے ہیں کہ کچھ سینہ میں سے عطا کیجئے میں کہتا ہوں کہ سینہ میں کیا رکھا ہے سوائے بلغم کے ۔ اس انہوں نے بڑا خفگی کا خط لکھا کہ تم نے اس طریق کی توہیں کی حضرت قاضی ثناءللہ صاحب پانی پتی فرماتے ہیں ۔ ازسینہ درویشاں بباید جست ۔ تم دریشوں کے معتقد نہیں اور لطف یہ کہ جن صاحب نے لکھا تھا وہ حضرت مولانا گنگوہی کے مرید بھی تھے دیکھئے مرید ہوکر بھی جہل نہ گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ نرا مرید ہونا کافی نہیں صحبت کی ضرورت ہے اور جو نری صحبت ہو مرید نہ ہو وہ کافی ہے ۔ میں ان کا خط پڑھ کر ہنسنے لگا کہ انہیں یہ ہی خبر نہیں کہ میں نے یہ کسے کہا ہے ارے اے کہا ہے جو خود تو کچھ نہ کرے اور سینہ ہی سے ڈھونڈتا پھر سے اے تو واقعی سینہ سے سوائے بلغم کے کچھ نہ ملے گا اور زیادہ ترلوگ ایسے ہی ہیں ۔ البتہ جو خود کام کرتا ہوا سے حق ہے کہ یہ فرمائش کرے کہ کچھ سینہ سے بھی عطا فرما دیجئے اس کو واقعی بزرگوں کے سینے سے فیض حاصل ہوسکتا ہے ۔ لوگ سمجھتے تو کچھ ہیں نہیں اور جھٹ اعتراض کردیتے ہیں ۔ چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ ردند ایسی ہی باتوں سے تو کوئی شخص مجھے پورا پورا اپنا موافق نہیں سمجھتا نہ پورا پورا مخالف سمجھتا ۔ ہر کسے از ظن خود شدیار من وز درون من نجست اسرار من اس لئے ایک متعرض مولوی صاحب نے تو کہہ دیا کہ وہاں کا تو دربار ہی نرالا ہے وہاں کی کیا پوچھتے ہوا رہے میرا دربار تو کیا نرالا ہے ۔ تمہیں نرالے ہوگئے ہو ۔ اسی لئے تمہیں نرالا معلوم ہوتاہے ۔ تم نے نئی نئی باتیں ایجاد کرلیں ہیں ۔ الحمد اللہ یہاں تو وہی طریقہ ہے جو تیرہ سو پرس پہلے تھا ۔ (193) حضرت حکیم الامت کی تواضع