ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
موجودہ جس کا علاج ضروری ہے تو کیا وہ شخص اس نفسانی مرض کے نسخہ کو حضور کے مواعظ و ملفوظات میں دیکھ کر اس استعمال شروع کر دے اور حضور کو یا اس کے مرشد کوئی دوسرے بزرگ ہوں تو ان کو اطلاع دینے کی ضرورت نہیں یا بلا اپنے شیخ سے دریافت کئے اس علاج کا جو کہ اس مرض نفسانی کا اس نے دیکھا ہے استعمال نہ کرے حضرت حکیم الامت رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا یہ دیکھنا چاہئے کہ اس شخص کو طریق باطن سے کافی مناسبت پیدا ہو گئی ہے یا نہیں ـ اور اس کو اس علاج میں کسی قسم کا تردد اور اشکال تو در پیش نہیں اگر وہ ایسا ہے کہ اس کو طریق سے کافی مناسبت پیدا ہو گئی ہے اور اس کو اس علاج کے متعلق کوئی تردد بھی نہیں ہے تب تو اس علاج کا استعمال کر لینا چاہئے اور اپنے شیخ سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر اس شخص کو ابھی کافی مناسبت طریق سے پیدا نہ ہوئی ہو یا اس کو اس علاج میں کوئی تردد ہو مثلا وہ علاج ایسا ہو کہ جو عام طور پر تو مناسب ہو مگر اس خاص شخص کی حالت پر نظر کر کے وہ علاج اس کے لئے مناسب نہیں مثلا یہ شخص غیر معمولی حد تک لطیف المزاج ہو اور اس علاج کا اسکو تحمل نہ ہو سکے یا یہ شخص غیر معمولی درجہ میں قوی المزاج ہو کہ اس شخص کو چاہئے کہ وہ اس علاج کو استعمال نہ کرے بلکہ اس مرض کا علاج اپنے شیخ سے دریافت کرے - اور وہ شخص جس کو طریق سے کافی مناسبت پیدا ہو گئی ہو تو اول اس مرض کے علاج کے متعلق اپنے شیخ کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں اگر وہ شخص اپنے شیخ پر اپنی یہ حالت ظاہر بھی کرے تو بطور اطلاع کے ظاہر کرے یعنی اس اظہار کی صورت اور عنوان ایسا ہو کہ جیسے کہ ایک اطلاع کا ہوا کرتا ہے مثلا اس طرح لکھے کہ میرے اندر فلاں مرض ہے مثلا تکبر ہے یا حب دنیا ہے اور اس کا علاج فلاں وعظ یا مفوظ میں میں نے یہ دیکھا ہے اور اس علاج کو میں نے اپنی حالت اور مرض کے مناسب خیال کر کے اس کا استعمال شروع کر دیا ہے لیکن اگر یہ فعل میرا نا مناسب ہو تو براہ کرم مطلع فرما دیا جاوے تو اس طرح اس واقعہ کو بطور اطلاع کے شیخ کو لکھ دے بطور دریافت کے نہ لکھے کہ اس کا کیا علاج کروں کیونکہ ایسی صورت سے دریافت کرنے میں مصلح کی طبیعت پر بلا ضرورت بار پڑتا ہے کیونکہ اس طرز میں مصلح کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور اس کو از سر نو تمام پہلوؤں پر غور کر کے جواب دینا ہوتا ہے اور دوسری خرابی اس دریافت کے طرز میں یہ ہے کہ انسان کی طبیعت کا رنگ ہر وقت یکساں نہیں رہتا بلکہ ہر زمانہ میں جدا گانہ