ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
میرے ذمہ یہ الٹا کام بڑھ گیا کہ دوسروں کو تقسیم کروں بھی اس کا بھی افسوس ہوتا ہے کہ مجھ پر احسان تو ہوا مگر مجھ کو کوئی فائدہ نہ ہوا رہا دوسروں کو تقسیم کرنا اگر کوئی اس کو فائدہ کہے تو اس کے متعلق میرا مذاق وہی ہے جو حضرت مرزا جانجاناں رحمتہ اللہ علیہ کا تھا ۔ ایک معتقد اسی طرح کوئی ایسی چیز ہدیہ لے آٰیا جس کو مرزا صاحب بوجہ عدم حاجت کے لینا نہ چاہتے تھے ۔ آپ نے یہی عذر کرکے لینا سے انکار کیا تو اس نے عرض کیا کہ لیکر اوروں کو تقسیم کردیجئے ۔ اس پر مرزا صاحب نے فرمایا میں کیون تقسیم کروں خود تقسیم کردو میں خواہ مخواہ کیوں تشویش میں پڑوں ۔ ہمارے حضرت حاجی رحمتہ اللہ نے بھی ایک نواب صاحب کو جنھوں نے اپنی جائداد کا انتظام کرکے مکہ معظمہ قیام کرنے کی اطلا ع دی تھی منجملہ دیگر مضامین کے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ کسی ایسے معتمد کے انتظام میں چھوڑ کر آئیں کہ آپ کو یہاں آکر بالکل بے فکری رہے اور ماہوار خرچ یہاں بیٹھے پہنچتا رہے لیکن مساکین اور مستحقین کی تقسیم کے لئے اپنے پاس کچھ نہ منگائیں اس کا انتظام بھی وہیں کرکے آئیں ۔ دیکھئے ظاہر میں یہ کیسی وحشت ناک بات ہے لیکن حضرت نے اس کی مصلحت یہ تحریر فرمائی کہ یہاں رہنے والے کو ہرقسم کی تشویش سے بچنا چاہے تاکہ بالکل یکسوئی کے ساتھ یہاں رہنا نصیب ہو اور کسی قسم کی فکر مخل جمیعت نہ ہو ۔ رہا یہ کہ یہ سخاوت کے خلاف ہے تو ہر شخص کی سخاوت جدا ہے ۔ پھر یہ شعر تحریر فرمایا ۔ نان داون خود سخائے صادق است جان دادن خود سخائے عاشق است بس یہاں مکہ میں تو عاشقوں کی سخاوت لیکر بیٹھنا چاہیے اور زاہدوں کی سخاوت کا انتظام وہیں ہندوستان میں کرکے آئے اھ ۔ پھر حضرت اقدس مدظلہم العالی نے فرمایا کہ میں نے حضرت حاجی صاحب کا وہ خط مولوی شبیر علی کو دیدیا کہ وہ کسی رسالہ میں اس کو چھپوادیں ۔ (208) حضرت حکیم الامت کااصل مذاق کسی سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں خود سے تو متاثر ہوتا ہوں لیکن الحمدللہ طمع سے متاثر نہیں ہوتا ۔ چاہے دل میں طمع ہو یہ اللہ ہی کو خبر ہے میں اس کا دعویٰٰ نہیں کرتا ۔ فلا تزکوا انفسکم ھو علم بمن اتقی ۔ لیکن طمع ظاہر کبھی نہیں ہونے دیتا ۔ کیونکہ اس میں