ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
(191) صرف مرید ہونا کافی نہیں ایک نووارد طالب نے غایت ادب کی بناء پر بہت آدمی دھیمی آواز سے اپنا تعارف کرایا ۔ جو حضرت کی سمجھ میں بالکل نہ آیا چونکہ آتے ہی طبیعت کومکدر کردیا اس لئے فرمایا کہ جائیے مسجد میں بیٹھے ۔ جب آدمیت آجائے اس وقت پھر جو کچھ کہنا ہو آکر کہئے ۔ بعد کو فرمایا کہ خدا ناس کرے اس عجمی تکلف کا بات یہ ہے کہ لوگ مجھ کو بزرگ سمجھ کر آتے ہیں اورمیں بہ آواز دہل کہتا ہوں کہ میں بزرگ نہیں ہوں میں مشائخ کا سا ادب نہیں چاہتا میں تو ایک طالب علم ہوں جو معاملہ ایک طالب علم کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ میرے ساتھ کیا جائے ۔ جو بزرگوں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے اس کا میں متحمل نہیں اور یہاں تک فرمایا تھا کہ ایک صاحب جو اس سے قبل بخاری شریف کے سند لینے کی بلا ضرورت اور باوجود مشاہدہ ہجوم اشغال وکسل وتعب درخواست کرچکے تھے (اور جن کو حضرت نے ڈانٹ دیا تھا کہ یہ کیا پیروں کی سی رسمیں یہاں برتنے لگے ۔ مجھے فرصت دھری ہے ایسی غیر ضروری باتوں کی اس کا منشاء سوائے کید نفس کے کہ دیکھئے ہم بڑے محدث ہیں فلاں فلاں سے ہم کو سند حاصل ہے اور کیا ہے وہ صاحب ) بغرض معذرت حاضر ہوئے اور حضرت کےا س استفسار پر کہ سچ سچ بتلائیے اس درخواست کا اصل منشا کیا ہے ۔ اپنے کید نفس کا اقرار کیا ۔ پھر دیر تک ایسی حالت میں سند حاصل کرنے کے فضول ہونے کے متعلق تقریر فرماتے رہے یہ بھی فرمایا کہ دوحال سے خالی نہیں کتاب آتی ہے یا نہیں آتی اگر کتاب آتی ہوگی تو سند کی ضرورت ہی کیاہے طالب علم خود سمجھ لیں گے کہ کتاب آتی ہے اور اگر کتاب نہ آتی ہوگی تو کیا محض سند دکھانے سے طالب علموں کی تسلی ہوجائے گی کیا یہ کہنا کافی ہوجائے گا مجھے اس مقام کا مطلب سمجھانا آیا نیہں مگر میں سند لاکر دکھلادوں گا میرے پاس سند موجود ہے ۔ بس یہ سب رسوم ہیں اور کچھ نہیں ۔ ان رسوم نے ناس کیا ہے ۔ ایسے ہی مشائخ کے یہاں بس رسوم ہی رسوم وہ گئی ہیں ۔ دوکانداری ہوگئی ہے ہم نے بھی حدیث پڑھی ہے مگر ہمیں تو کبھی اس کی فکر نہ ہوئی کہ کسی سے سند حاصل کریں ۔ جب ہم حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے حدیث پڑھتے تھے تو اسی زمانہ میں حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ کے یہاں بھی حدیث کا دورہ شروع ہوگیا اور طالب یہاں سے ٹوٹ ٹوٹ کر وہاں جانے لگے ۔ مگر مجھے الحمداللہ کبھی اس کا وسوسہ بھی نہیں آیا کہ وہاں چلا جاؤں حالانکہ میرا