ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کا اندیشہ ہے کہ اگر شیخ نے اس سے صریحا معافی مانگی تو ممکن ہے اس طالب کے اندر کبر و عجب پیدا ہو جائے کہ ہماری اتنی شان ہے کہ ہمارے شیخ نے ہم سے معافی مانگی ـ بلکہ شیخ کو چاہئے کہ اس طالب کے ساتھ برتاؤ ایسا کرے اور اس کے ساتھ ایسی ملاطفت کرے جس سے وہ طالب بہ ظاہر خوش ہو جائے ـ بس اتنا کافی ہے اس سے زیادہ مناسب نہیں ـ اسی طرح تعلیم ظاہری میں بھی استاد کو شاگرد پر تنبیہ کرنا ضروری ہوتا ہے تو اس کے اندر بھی بعض اوقاف تنبیہ کرنے میں کرنے میں استاد سے شاگرد پر زیادتی ہو جاتی ہے یعنی جتنی سزا اس غلطی کی ہوتی اس سے تجاوز ہو جاتا ہے تو استاد کو شاگرد سے صریحا معافی نہ مانگنا چاہئے کہ اس شاگرد پر برا اثر پڑے گا بلکہ استاد کو چاہئے کہ جب ایسا اتفاق ہو تو اس شاگرد کے ساتھ برتاؤ ایسا کرے کہ جس سے وہ شاگرد خوش ہو جائے اور اگر کسی استاد کا اپنے شاگرد سے صریحا معافی مانگنے کو بہت ہی دل چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ شاگرد اس استاد سے پڑھ لکھ کر فارغ ہو جائے اور اپنے یہاں سے اس شاگرد کی تکمیل ہو جائے تو اس وقت اس شاگرد سے گذشتہ زیادتیوں کی معافی مانگ لے تو مضائقہ نہیں چناچہ مولانا فتح محمد صاحب جو ابتدائی کتا بوں کے میرے استاد تھے انہوں نے میرے ساتھ ایسا ہی کیا کہ ایک بار جس زمانہ میں میں ان سے تھانہ بھون میں پڑھا کرتا تھا اس زمانہ میں ان سے کسی نے میری غلط شکایت کر دی بزرگوں کو چونکہ ہر شخص کے ساتھ حسن ظن ہوتا ہے اس لئے مولانا نے ان کی روایت کو سچا سمجھ کر مجھ کو تنبیہ فرمائی اور اس کے اندر حدود سے تجاوز ہو گیا اس زمانہ میں تو مولانا نے مجھ پر اس کا کچھ اظہار نہ فرمایا جب میں مولانا سے پڑھ کر دیوبند سے فارغ ہو کر تھانہ بھون آیا اس وقت مولانا فتح محمد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ بھائی اگر مجھ سے تعلیم کے زمانہ میں کچھ زیادتی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا میں نے ہر چند عرض کیا کہ آپ تو میرے استاد تھے آپ کی میرے اوپر کیا زیادتی ہوتی اور اگر ہو بھی تو یہ سب کچھ اسی کی برکت ہے مگر مولانا فتح محمد صاحب نے میری ایک نہ مانی اور جب تک میری زبان سے معافی کا لفظ نہ کہلوا لیا اس وقت تک مولانا کو چین نہ آیا ـ اسی سلسلہ میں ایک قصہ بیان کیا کہ گنگوہ میں ایک حافظ صاحب کیرانہ کے رہنے والے تھے جو بچوں کو پڑھایا کرتے تھے ان کی یہ عادت تھی کہ جب ان سے کسی بچہ پر زیادتی ہو جاتی تو وہ اس شاگرد سے معافی مانگا کرتے اور صرف زبانی ہی نہیں بلکہ اس شاگرد سے کہتے کہ تو مجھ