ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
( 138 ) صل مقصود رضائے الہٰی ہے فرمایا اصل مقصود رضاء ہے محض وصول مقصود نہیں یعنی جو وصول حق تعالیٰ کا حق تعالی کی رضاء کے ساتھ نہ ہو وہ وصول مقصود نہیں بلکہ وصول وہی مقصود ہے جس کے ساتھ رضاء بھی ہو اور وصول بلا رضا کی مثال ایسی ہے کہ دہلی کے شاہی زمانہ کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک شخص دیہاتی غریب دہلی میں آیا ور س کو شوق ہوا کہ میں بادشاہ کا دیدار کروں مگر حیران تھا کہ کس طرح یہ مقصود حاصل ہو کہ ایک شخص ملے جو بہ ظاہر بھلے مانس معلوم ہوتے تھے ان سے اس نے کہا کہ مجھ کو کوئی ایسا طریقہ بتلاؤ کہ میں بادشاہ کا دیدار کرلوں انہوں نے اس شخص سے کہا کہ یہ کیا دشوار ہے کسی بھلے مانس کو پیٹ پاٹ دو بس دیدار ہوجائے گا - وہ شخص پکڑ کر خود تجھے درباع میں لے جائے گا بس دیدار ہوجائے گا - اس دیہاتی نے کہ اجی بھلا تم سے زیادہ بھلا مانس کون ہوگا اور یہ کہہ کر اس دیہاتی نے اس شخص کو پیٹ دیا تو وہ صاحب چونکہ ایک معزز آدمی تھے اور س دیہاتی کے ہاتھوں ان کی بڑی بے عزتی ہوئی تھی اس لئے ان کو بڑا غصہ ایا اور اس دیہاتی کو پکڑ کو خود دربار میں لے گئے اور اس طرح اس دیہاتی کو بادشاہ کا دیدار ہوگیا تو کیا کوئی ایسے دیدار کو مستحسن سمجھے گا ہرگز نہیں رونہ پھر اس طرح تو ہر شخص بادشاہ کا دیدار کر سکتا ہے بلکہ دیدار وہی محمود ہے جو بادشاہ کی خوشی کے ساتھ ہو اسی طرح وصول وہی مقصود ہے جو رضاء کے ساتھ ہو - پھر اس پر حضرت والا نے تفریع کی اور فرمایا کہ اسی طرح بعض طالبین کی یہ تمنا ہوتی ہے اور انتظار ہوتا ہے کہ شیخ کی مجلس میں ہمارا بھی ذکر آیا کرے تو گو ذکر بھی ایک قسم کا قرب ہے مذکور کا اور محب اپنے محبوب کے قرب کا مشتاق ہوا ہی کرتا ہے اور اس لئے یہ چاہنا کہ شیخ کی مجلس میں ہمارا بھی ذکر آئے بظاہر محمود معلوم ہوتا ہے مگر ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شیخ کے قرب سے زیادہ ان کو شیخ کی رضا اور خوشنودی کی فکر چاہیے دوسرے یہ ہے کہ یہ چاہنا کہ شیخ کی مجلس میں ہمارا بھی ذکر آئے دلیل ہے اس بات کی کہ ابھی طالب کو فناء نہیں حاصل ہوئی اور میں اپنے لئے اور اسی طرح اپنے سب دوستوں کے لئے جو چیز تجویز کرتا ہوں وہ فناء ہے اور جب فناء حاصل ہوگئی تو پھر یہ چاہنا کیسا کہ شیخ کی مجلس میں میرا بھی ذکر آئے غرض بندہ کو اپنے لئے فناہی تجویز کرنا چاہیے خوب کہا ہے کہ ہو فناء ذت میں کہ تو نہ رہے تیری ہستی کی رنگ وبود نہ رہے