ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
وہی مقام نکل آیا جہاں یہ شعر ہے اس کے نیچے میرے ہی ہاتھ کا پنسل سے لکھا ہوا تھا اے علماء ظاہری ہیں نہ کہ وہ خود حضرات جیسے بعض اشعار میں جیسے حاتم سے مراد خود حاتم نہیں ہوتا بلکہ سخی مراد ہوتا ہے یہ تفسیر کبھی اللہ تعالٰی نے اس زمانہ کی ضرورتوں ک مطابق مضامین ذہن میں ڈالے ہیں اس لئے یہ اس زمانہ میں زیادہ نافع ہیں اور پہلے زمانہ میں وہ نافع تھیں ۔ اب حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے جو مجاہدے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں وہ اس زمانہ کے مناسب تھے کیونکہ اس زمانہ کے لوگ بہت قوی ہوتے تھے اور ان کی ہمتیں بھی قوی ہوتی تھیں ۔ اس زمانہ کے لوگ اگر ان مجاہدات کو کریں تو چونکہ آج کل قوی ہمتیں بہت ضعیف ہیں ہرگز ان کا تحمل نہ کر سکیں ۔ اسی طرح تصنیفات متعلق تدابیر اس زمانہ میں ہوتیں تو نافع نہ ہوتیں اس زمانہ کے لوگ بہت قوی تھے ۔ اور جو یہ تدبیریں میں نے لکھی ہیں نہایت ضعیف ہیں جیسا میں ضعیف ہوں یہ ان قوی لوگوں پر کچھ بھی اثر نہ کرتیں طبیعت کے آثار واحکام میں استطر ادا وتفریحا یہ بھی فرمایا کہ اللہ کا فضل ہے کہ جب کسی بیماری کے بعد مجھے صحت ہوتی ہے تو طبیعت خود بخود دو اسے ہٹ جاتی ہے حکیم محمد ہاشم صاحب مرحوم فن طب میں کامل تھے بہت اچھے طبیب تھے دوا پیتے پیتے ان سے جس دن کہتا کہ آج تو دوا پینے کو جی نہیں چاہتا وہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس صحت ہوگئی اور نبض سے اس کی تائید ہوتی ۔ اس کے تو اطباء بھی قائل ہیں کہ طبیعت مدبر عادل ہے اطباء محقیقن نے یہی لکھا ہے ۔ اتنا فرق ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اسی کو علی الاطلاق مدبر بدن لکھتے تھے ۔ اسلام میں یہ فرق ہوگیا کہ جہاں طبیعت کو مدبر بدن لکھا ہے وہاں یہ الفاظ بھی بڑھا دیئے ہیں ۔ باذن خالقہا ۔ ( 200 ) محبت عقلی مامور ہے ایک خط میں تصور شیخ کے متعلق کچھ استفسار تھا اسی کے سلسلہ میں فرمایا کہ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ ایک شغل ہے اور شغل خود کوئی مقصود نہیں بلکہ شغل اس لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ اس سے یکسوئی حاصل ہو کہ وہ ذکر اللہ میں معین ہیں ۔ جب یکسوئی مقصود ٹھہری تو اس کے لئے یہ قید نہیں کہ کوئی خاص شغل ہو حتی کہ قاعدہ کی رد سے اگر چھت کی کڑی کو غرض شغل فی نفسہ دین نہیں ہے بلکہ یکسوئی کی ایک تدبیر ہے چنانچہ کانپور مین ایک بی بی مد قوق