ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
حضرت زید سے حضور کی وساطت سے ہوا تھا پھر اس میں طلاق کا واقعہ پیش آیا اس لئے حضور ﷺ کو س کا صدمہ بھی زہادہ تھا میری وساطت سے ان کو یہ تکلیف پہنچی اور حضور ﷺ حضرت زینب کی کسی طرح دلجوئی کرنا چاہتے تھے - اور دلجوئی کا طریقہ اس سے احسن نہیں تھا کہ حضور ﷺ ان سے خود نکاح کرلیں اس لئے حضور نے ان سے نکاح کرنا چاہا مگر لوگوں کی ملامت کی وجہ سے مناسب نہ سمجھا تھا مگر پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نکاح ہوا - پس تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ میں یہی نکاح مراد ہے نہ کہ محبت - اور اس کا ایک کھلا قرینہ یہ ہے کہ اس مخفی چیز کو اس عنوان سے ارشاد فرمایا ہے ما اللہ مبدیہ اس سے معلوم ہوا کہ اخفاء اس چیز کا ہوا کہ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے ایبداء فرمایا ہے اور ابداء نکاح کا ہوا ہے قولا بھی جو زوجنکھا میں ہے اور فعلا بھی اور وہ وقوع نکاح ہے پس معلوم ہوا کہ جس چیز کا اخفاء ہوا تھا وہ نکاح تھانہ کے محبت تو تخفی فی نفسک میں مراد نکاح ہے نہ کہ محبت - احقر ناقل ملفوظ ہذا عرض کرتا ہے کہ کسی فعل کے متعلق کسی صورت میں عوام کے شبہات کے رفع کا اہتمام کرنا محمود ہے اور کہاں مذموم ہے اس کے متلعق ایک مفید تحقیق حضرت حکیم الامۃ دام ظلہم العالی نے اپنی تصنیف کو سومہ التشرف مطبوعہ دہلی کے حصہ اول پر بیان فرمائی ہے یہ حصہ اول عبارت سے شروع ہوا ہے و ھذا فھذا تحقیق عدۃ الخ ( 142 ) ہر بزرگ کے ساتھ توجہ حق کا معمالہ جدا ہوتا ہے ایک بار حضرت والا طریق تصوف کے کسی مسئلہ کا بیان فرمارہے تھے اس بیان میں حضرت سلطن نظام الدین محبوب الہیٰؒ کی حکایت ارشاد فرمائی کہ ایک بار حضرت سلطان جی اپنے شیخ حضرت بابا فرید شکر گنج ؒ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کتاب فتوحات مکیہ فصوص کا مجلس میں تذکرہ آی تو حضرت شیخ فرید نے فرمایا فتوحات کا نسخہ صحیح نہیں ملتا اس پر حضرت سلطان جی نے عرض کیا کہ فلاں شخص کے پاس اسکا صحیح نسخہ ہے - حضرت شیخ نے فرمایا کہ جی ہاں بغیر نسخے کے ' اس کتاب کے مطلب کا سمجھنا بھی مشکل ہے - اس وقت یہ تذکرہ ختم ہوگیا جب مجلس برخاست ہوئی اور سب خدام باہر آگئے تو حضرت شیخ فرید کے صحبزادے نے سلطان جی سے کہا کہ کچھ معلوم بھی ہے کہ بابا فرید نے یہ کیوں فرمایا کہ بغیر صحیح نسخے کے اس کا مطلب بھی