ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کہ ذرا علالت ہوئی اور سارے کام بند ۔ اس پر فرمایا کہ وہ حضرات مخدوم ہیں اور میں خادم ہوں اس لئے یہ فرق ہے پھر خادم ہونے پر تفریح فرمائی کہ جن پر عتاب ہوتا ہے ان کی بھی خدمت ہی کرتا ہوں کیونکہ ان کی خدمت یہی ہے کہ ان کا دماغ درست کیا جائے تو اس طرح میں متکبروں کی بھی خدمت ہی کرتا ہوں ان کی خدمت یہی ہے کہ ان سے اعراض کیا جائے لیکن اعراض بھی حد کے اندر وہ حدیہ ہے کہ میں امراء سے عتاب میں بھی تہذیب کا برتاؤ کرتا ہوں مگر تملق نہیں کرتا ۔ جو مواقع اعراض کے ہیں ان میں بھی کوئی برتاؤ ایسا نہیں کرتا جس سے ان کی تحقیر ہو چنانچہ سرحد بھوپال گوالیار کے ایک نواب ہمیشہ اپنے مجسڑیٹ کے ڈریعہ سے مجھ کو سلام لکھوایا کرتے تھے مگر اس کا میرے قلب پر بہت بار ہوتا تھا بلاخر میں نے ان کو اس سے روکنا چاہا تو یہ نہیں لکھا کہ سلام نہ لکھوایا کرو کیونکہ اس عنوان پر اپنا بڑا ہونا اور ان کا حقیر ہونا ظاہر ہوتا ۔ بلکہ یہ لکھا کہ میں نے ایک غریب آدمی ہوں اور آپ نواب ہیں میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ مجھ کو سلام لکھوایا کریں اس سے مجھ پر بہت بوجھ پڑتا ہے لہذا آئندہ مجھ کو اس شرف س معاف رکھا جائے تو دیکھئے اس عنوان میں میں نے ان کی نہیں گھٹایا بلکہ خود اپنے کو گھٹایا اور لکھا کہ چونکہ آپ بڑے آدمی ہیں اور میں چھوٹا آدمی ہون اس لئے آپ کے سلام میرے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور یہ امر واقعی بھی ہے کیونکہ کسی کی کمر پر کوئی موٹا آدمی سوار ہوجائے اور ہو کہے کہ اترو مجھ پر بوجھ پڑ رہا ہے تو اس کہنے سے اس نے اس کو حقیر نہیں سمجھا بلکہ عظیم سمجھا تو بوجھ پڑنا اور بات ہے او رحقیر سمجھنا اور بات ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ آدمی تو آدمی اور پھر وہ بھی مسلمان ، میں تو کسی جانور کو بھی حقیر نہیں سمجھتا ، مگر ہاں مجھ سے کسی کی غلامی اور خوشامد نہیں ہوتی ۔ پھر اللہ کا شکر ہے جن پر ڈانٹ پڑتی ہے انکو بھی اکثر ناگواری نہیں ہوتی اس کی وجہ یہی ہے کہ الحمداللہ میں اپنے کو بڑا سمجھ کر نہیں ڈانٹتا بلکہ وہ محض اظہار ہوتا ہے اپنے ضعف کا کہ بھائی میں متحمل نہیں تمہارے بوجھ کا ۔ ایک مرتبہ ہم کاندھے گئے تھے اور میاں احتشام الحق رامپوری بھی ساتھ تھے ، کھانے کو بیٹھے تو ایک معزز رئیس کا پاؤں ، جو منتظم تھے اور بھاری جسم کے تھے ، اتفاق سے میاں احتشام کے ہاتھ پر پڑگیا تو وہ بہت تک اس کا تذکرہ کرتے رہے کہ وزن زیادہ تھا بڑی تکلیف ہوئی ۔ تو انہیں حقیر تھوڑا ہی سمجھا اپنے عدم تحمل کا اظہار کیا ۔ (244) ارتقاع مکانی فضیلت کی دلیل نہیں ۔