ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
اصلاح وہ نہیں کر سکتا ـ بلکہ اپنی اصلاح کے لئے اس کو کسی دوسری طرف رجوع کرنا ہو گا ـ لہٰذا شیوخ کو چاہیے کہ جب ان کو کوئی ضرورت پیش آئے تو وہ اپنے سے بڑے شخص سے دریافت کیا کریں اگرچہ وہ شخص جس کے سامنے اس اشکال کو پیش کیا جاوے اپنے سلسلہ کا نہ ہو بلکہ کسی دوسرے سلسلہ کا ہی ہو مگر یہ ضروری ہے کہ وہ شخص جس سے یہ استفادہ کیا جاوے اہل حق میں سے ہو اور اہل باطل سے نہ ہو ـ اور اگر کوئی بڑا ( خدا تعالی نخواستہ ) نہ ہو تو پھر یہ کرے کہ اپنے چھوٹوں میں سے متعدد اشخاص کے سامنے اس کو ظاہر کر کے اس امر کے متعلق ان سے مشورہ کرے اور مشورہ کے بعد غور کرے کہ ان میں سے کس کا مشورہ دل کو لگا پے پھر علم ضروری کے طور پر ضرور لگ جاتا ہے اور اس کے صواب ہونے پر قلب کو پورا پورا اطمنان ہو ہی جاتا ہے بس ان چھوٹوں سے جس کا مشورہ علم ضروری کے طور پر دل کو لگے اس پر عمل کرے ـ ایک بار حضرت حکیم الامت دام ظلہم العالی نے اسی مسئلہ مذکور کی تحقیق فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب مہتمم مدرسہ دیوبند حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب دہلوی سے بیعت تھے اور ایک مستقل شیخ تھے ـ مگر باوجود اس کے جب شاہ عبدالغنی صاحب کا انتقال ہو گیا تو شاہ رفیع الدین صاحب نے یہ خیال نہیں کیا کہ میری تو تکمیل ہو چکی ہے اب مجھ کو کسی دوسرے بزرگ کی طرف رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ شاہ عبدالغنی صاحب کے بعد وہ حضرت حاجی صاحب سے بیعت ہو گئے ـ بعض لوگوں نے جب عرض کیا کہ حضرت آپ تو خود مستقل شیخ ہیں آپ کو اب کیا ضرورت تھی شاہ رفیع الدین صاحب نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ بھائی آدمی جب تک زندہ رہے اس کو چاہئے کہ سر پر کسی نہ کسی بڑے کو موجود رکھے ـ پہلے میرے شیخ موجود تھے اس لئے ضرورت نہ تھی اب جب ان کا انتقال ہو گیا تو میں نے حضرت حاجی صاحب کی طرف رجوع کیا ـ پھر حضرت حکیم الامت نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی بڑا نہ میسر ہو تو کسی چھوٹے ہی کو مشورہ میں شریک کر لینا چاہئے خواہ بعد مشورہ لینے کے ترجیح اپنی ہی رائے کو دے اور عمل اپنی ہی رائے پر کرے مگر مشورہ تو کر لے ـ مقصود یہ ہے کہ اپنے کو آزاد نہ رکھے ـ ( 106 ) جاہ عندالخالق بھی مذموم ہے