ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
میں سچا سمجھ لینا چاہیے ۔ ورنہ یہ تو بدگمانی ہوگی ایک مسلمان کی طرف سے سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ بلا وجہ کسی طرف سے بدگمانی جائز نہیں مگر بدگمانی کے مذموم ہونے سے یہ لازم تو لازم نہیں آتا کہ دنیا بھر کو سچا ہی سمجھتا رہے بلکہ اگر کسی کی کوئی بات دل قبول نہ کرے اور اس قول کے سچا ہونے میں کسی وجہ سے شبہ پیدا ہوجائے تو ہاں پر گناہ سے بچنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس قائل کو یقینا ،، جھوٹا نہ سمجھے لیکن احتمال پیدا ہوجائے جس سے معاملہ احتیاط کا تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ۔ (167) مرید کا وارد غیبی شیخ کی رائے پر موقوف ہے فرمایا ایک صاحب کا خط آیا ہے انہوںنے تحریر کیا ہے کہ میرے اندر بدگمانی کا مرض ہے اس کا علاج فرمایا جاوے میں نے انکو حسب ذیل جواب لکھا ہے ۔ تم کو جولوگوں کے متعلق یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے اندر فلاں فلاں عیب ہوگا تو کیا تم اس کا یقین کرلیتے ہو ۔ اور کیا تم زبان سے اس بدگمانی کے مضمون کو بیان کرتے ہو ۔ اور کیا تم اس شخص کے ساتھ برتاؤ بھی ویس ہی کرتے ہو جیسا کہ تم کو اس کے متعلق گمان ہوتا ہے اگر ان تینوں باتوں میںسے کوئی بات بھی نہ ہو تو پھر تم پر موخذاہ نہیں ۔ (168) شیخ کو صاحب فنا ہونے کی ضرورت فرمایا اگر کسی مرید کا کوئی وارد شریعت کے خلاف نہ ہو مگر اپنے شیخ کی رائے کے خلاف ہو تو اگر وہ اپنے اس وارد عمل پر کرے تو اجازت ہے اور اس شیخ کو بھی چاہیے کہ محض اس وجہ سے وہ اس کی رائے کے خلاف کرتا ہے اس پر نیکرنہ کرے اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے صاحبین امام صاحب کے شاگرد تھے مگر باوجود اس کے صاحبین نے بعض مسائل میں امام صاحب کے خلاف کیا ہے مگر امام صاحب نے صاحبین پر اس کی وجہ سے کوئی نکیر نہیں کیا البتہ یہ بات کہ یہ امر جو مرید کے قلب پروارد ہوا ہے در حقیقت یہ وارد غیبی ہے بھی با نہیں یہ بات شیخ ہی کے رائے پر موقوف ہے اگر شیخ کہہ دے کہ تمہارا یہ وارد غیبی ہے تب تو اس کو غیبی سمجھے ورنہ مرید کو چاہیے کہ نہ اس کو اورد سمجھے اور نہ اس پر عمل کرے ۔ اور اگر شیخ کہہ دے کہ یہ وارد غیبی ہے تب بھی وارد اس شیخ ہی کا فیض ہوگا اور مرید کو چاہیے کہ یہی اعتقاد رکھے کہ اس