ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
ایک بار ایک شخص نے عرض کیا کہ طلب جاہ عندالخالق جس کو بعض عارفین نے مذموم قرار دیا ہے کیا اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک تو ہے درجات قرب میں سے کسی درجہ کا اپنے نفس کو مستحق سمجھنا کہ ہمارے اعمال ایسے کامل ہیں کہ ان کی وجہ سے ہم درجات کے مستحق ہو گئے ہیں یہ درجہ جاہ عندالخالق کا مذموم ہے اور ایک ان درجات قرب کا اپنے نفس کو محتاج سمجھ کر ان کے حصول کی تمنا اور دعا کرنا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حق تعالی سے جب تم مانگو تو جنت الفردوس مانگو یہ محمود اور مامور بہ ہے کیا یہ صحیح ہے ارشاد فرمایا کہ ہاں صحیح ہے اور جاہ عندالخالق جو مذموم ہے اس کی حقیقت یہی ہے اور اس کی مذمت بطور حال کے اس وقت سمجھ میں آتی ہے کہ جب حق تعالی کسی کو تواضع نصیب فرماتے ہیں بلکہ جس کو حقیقی تواضع نصیب ہو جاتی ہے اس شخص کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ درجات قرب کا اپنے آپ کو مستحق سمجھنا تو کجا یہ شخص تو اس کو بھی غنیمت سمجھتا ہے کہ جوتیوں سے نجات ہو جائے ـ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے اس کی ایک نہایت اچھی مثال تجویذ کی ہے جس سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ بندہ کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو کسی مرتبہ کا مستحق سمجھے وہ مثال یہ ہے کہ فرض کیجئے ایک شخص ہے جو کہ مفلس اور قلاش اور لنگڑا لولا اندھا گنجا ہے وہ اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھے کہ فلاں شہزادی جو کہ اتنی حسین و جمیل ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں مجھ پر عاشق ہو جائے پس جیسے یہاں ہر شخص جو ذرا بھی عقل رکھتا ہوگا اس شخص کے اس خیال کو اس شخص کی اعلی درجہ کی حماقت کہے گا ـ اسی طرح بندہ کا یہ خیال کہ میں درجات قرب کا مستحق ہوں محض حماقت ہے کیونکہ جیسے وہ لنگڑا لولا فقیر اس حسین و جمیل شہزادی کے مقابلہ میں ہیچ در ہیچ ہے اسی طرح اس سے کہیں زیادہ بندہ حق تعالی اس دعوی استحقاق کا کوئی حق نہیں تو حق تعالی کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کسی مرتبہ کا کیسے مستحق سمجھا جا سکتا ہے لہٰذا جاہ عندالخالق بایں معنی جیسے کہ شرعا مزموم ہے کہ ناشی ہے تکبر سے اسی طرح عقلا بھی قبیح ہے ـ ( 107 ) ایک صاحب کا مقام ناز اودھ کی طرف مولانا امیر علی صاحب شہید کے زمانہ میں ایک خان صاحب تھے جن کی