ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
آج کل لوگوں کی یہ حالت ہے کہ بزرگی کے لوازم سے ایک بات یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس بزرگ کو کسی بات کی حس نہ رہے کوئی شخص کتنی ہی تکلیف اس کو پہنچائے مگر اس کو اذیت نہ ہو اور کوئی بزرگ کسی کی بدتمیزی پر اس کو روک ٹوک کرتے ہیں تو ان کو سخت مشہور کیا جاتا ہے اس کے متعلق حضرت حکیم الامت دام ظلہم العالی نے فرمایا کہ ایک بار حضور ﷺ کی خدمت میں بیٹھ کر بعض لوگ بے ضرورت آپس میں باتیں کرنے لگے تھے تو حضور ﷺ کو ان لوگوں کی اس حرکت سے اذیت محسوس ہوئی تھی اور اذیت بھی ایسی کہ اس کی شہادت حق تعالی نے دی چنانچہ قرآن میں اس واقعہ کے متعلق ارشاد ہے ان ذلکم کان یؤذی النبی الایۃ تو جب حضور ﷺ کو جو کہ سید الانبیاء تھے اذیت کی بات سے اذیت کا احساس ہوا تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اذیتکی بات سے اذیت محسوس ہونا بزرگی کے خلاف ہے اب رہی یہ بات کہ آگے ارشاد ہے فیستحیی منکم جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو گو اذیت پہنچی تھی مگر حضور ﷺ اس اذیت کو برداشت فرماتے تھے اور ان لوگوں پر کچھ دارو گیر نہ فرماتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فیستحیی منکم سے آگے جو ارشاد ہے اس کو بھی تو دیکھنا چاہیے وہ یہ کہ واللہ لا فیستحیی من الحق یعنی اللہ تعالی حق سے بات کے ظاہر کرنے میں کسی کا لحاظ نہیں فرماتے پس معلوم ہوا کہ اگر خاموش رہنا سنت نبویہ ﷺ ہے تو روک ٹوک کرنا بھی سنت لہیہ ہے بس اگر ایک بزرگ نے سنت نبویہ ﷺ اور اخلاق محمدی ﷺ پر عمل کیا تو دوسرا اگر لوگوں کی اصلاح کی غرض سے ان کی نامناسب باتوں پر ان کو آگاہ کرتا ہے تو وہ سنت الہیہ پر عمل کرتا ہے اس کو سخت مزاج اور بد مزاج کیوں مشہور کیا جاتا ہے کیونکہ جیسے اخلاق محمدیہ ﷺ اور سنت نبویہ ﷺ قابل عمل ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیدہ اخلاق الہیہ اور سنت الہیہ قابل عمل ہے ۔ ( 153 ) اسماء اور مسمیات میں کچھ منسبت ضروری ہے ۔ ایک بار حضرت والا اکابر مثل حضرت مولانا گنگوہی و حضرت مولانا محمد قاسم صاحب و حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب وغیرہ کا تذکرہ فرما رہے تھے اور ان حضرات کے مجاہد و محاسن بیان فرما رہے تھے پھر ان حضرات کے فرقت پر اظہار افسوس فرما کر ارشاد فرمایا کہ ان حضرات کی زندگی مین گو اس کا عقیدہ تھا کہ ایک دن سب کو مرنا ہے مگر ان کی زندگی میں ہم لوگوں کو