ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
وارد کا ورود بھی شیخ ہی کی برکت سے ہوا ہے اپنے کو مستقل نہ سمجھے ۔ (169) حب عقلی اور حب طبعی ایک بزرگ نے جو حضرت والا کے مجاز طریقت ہیں غرض کیا کہ تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ شیخ کی محض تدبیر اور تعلیم سے طالبین کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے شیخ میں برکت کی ضرورت ہے فرمایا کہ بے شک یہی بات ہے پھر انہیں بزرگ نے دریافت کیا کہ اس برکت کے حاصل کرنے کی تدبیر ہے ارشاد فرمایا کہ اس کا حصول تو محض منجانب اللہ تعالٰٰی ہے بندہ کے اختیار میں نہیں جب حق تعالٰی کسی سے کام لینا چاہتے ہیں اس میں برکت بھی عطا فرما دیتے ہیں مگر تاہم اس میں خلوص اور صدق کو خاص دخل ہے بالخصوص اس میں فنا کو زیادہ دخل ہے شیخ کو چاہیے کہ جہاں تک تک ہو سکے اپنے آپ کو فنا کرے اور دعوے کو مٹائیے (170) ملکہ یاد داشت کو نسبت کہنا غلط ہے ایک بار ایک صاحب کے پاس جو حضرت والا سے اپنے امراض باطنہ کی اصلاح کرا رہے تھے حضرت والا نے جب عقلی اور طبعی تفسیر لکھ کر بھیجی اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ انسان دنیا کی حب عقلی کے ازالہ کا مکلف ہے نہ کہ حب طبعی کا اس کے بعد ان صاحب کا خط آیا کہ مجھ کو جناب کی اس تعلیم سے بے حد نفع ہوا اور بفضلہ تعالٰی اب میرے اندر حب دنیا کا مرض نہیں رہا ۔ حضرت والا نے یہ سب تحریرات حاضرین مجلس کو سنائیں ۔ اس پر ایک بزرگ نے جو حضرت والا سے بے تکف ہیں عرض کیا کہ حضرت قرآن وحدیث کے جن حقائق پر جناب کو اطلاع ہوئی دوسرے اکثر حضرات کی نگاہ وہاں تک نہیں پہنچی اس کی کیا وجہ ۔ فرمایا میں جو کچھ کہتاہوں کتاب وسنت میں فکر کرکے کہتا ہوِں ۔ اور جب عقلی اور طبعی کے متعلق جو تحقیق میںنے ان صاحب کو لکھی تھی اس کا ماخذ بھی کتاب وسنت ہی ہے چنانچہ جہاں ایک مقام پر کتا وسنت میں جب دنیا کی مذمت ہے تو دوسرے مقام پر یہ بھی ارشاد ہے کہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا اور یہ مشاہدہ ہے کہ حب طبعی باوجود کو شش کے بھی زائل نہیں ہوتی بس حب ان سے مقدمات کو ذہن میں جمع کرلیا جاوے تو سمجھ میں آجاوے گا کہ حب دنیا بے شک مذموم ہے مگر اس حب مذموم سے مراد وہ حب ہے جو طبعی نہ ہو کیونکہ حب طبعی کا ازالہ وسعت سے خارج ہوتا ہے اور جو چیز وسعت سے خارج ہو انسان کا مکلف نہیں لہذا