ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے ہی رہیں ۔ ایک خاں صاحب تھے جو اپنی رعایا پر بہت ظلم کیا کرتے تھے ایک بار وہ مسجد میں گئے ۔ وہاں کے ملاجی کو دیکھا کہ بہت دبلے اور خستہ حال ہورہے ہیں پوچھا ملاجی کیا حال ہے ملاجی نے کہا کہ اللہ تعالٰٰی کا شکر ہے اچھا حال ہے خاں صاحب نے کہا کہ ملاجی یہ تو بتلاؤ کہ تم نے اس وقت شکر کس بات پر ادا کیا کیونکہ بظاہر تو اس وقت کوئی بات ایسی نہیں معلوم ہوتی کہ جو سبب ہو شکر کا ملاجی نے جواب دیا کہ میں اس وقت اس بات پر شکر ادا کررہا ہوں کہ میں ایک غریب جو لاہا ہوں خاں صاحب نہ ہوا کہ میں اس وقت تو لوگ مجھ پر ہی ظلم کرتے ہیں تو یہاں کی زندگی تو تھوڑے ہی دنوں کی ہے جس طرح بھی ہوسکے گزاری جاسکتی مگر وہاں آخرت میں تو میرے لئے خزانہ جمع ہورہاہے اور اگر خاں صاحب ہوتا تو یہاں دنیا میں نہ معلوم کس کس پر ظلم کرتا جس کی وجہ سے میرا ساری عمر کا نماز روزہ دوسروں کے پاس چلا جاتا اور میں قیامت کے روزہ کو رارہ جاتا ۔ ( 158 ) بزرگوں کی صحبت افادہ سے خالی نہیں فرمایا آج کل تو خوش اخلاقی یہ ہے کہ بس طالبین کی غلامی کرو اگرچہ اس غلامی سے طالب کے دین کو نقصان ہی پہنچے اور آج کل کے اکثر شیخ بھی اسی طرز کو پسند کرنے لگے ہیں چنانچہ میں نے ایسے دو امواقعے سنے ہیں جن میں سے ایک بیان کرتا ہوں کہ ایک صاحب اپنے شیخ سے ملنے گئے جب شیخ سے ملاقات کرکے واپسی کے قصد سے اٹھے تو جوتہ ڈھونڈ نے لگے پیر صاحب نے فوار ان مرید کا جوتہ لاکر ان کے سامنے رکھ دیا ۔ ہم سے ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو طالب کی اصلاح نہ ہوئی بلکہ اگر اس نے اس کو گورا کر لیا تب تو اس کا دماغ بگاڑنا ہوا اور اگر اس نے اس کو گوارا نہ کیا تو دیکھنا چاہیئے کہ شیخ کے اس فعل سے مرید کو کس قدر گرانی اور اذیت ہوتی ہوگی میرے پاس ایک صاحب سندھ سے آئے تھے ۔ جب مجھ کو گھر جانے کی ضرورت ہوئی تو میں اپنا جوتہ اٹھا کر چلا تو ان صاحب نے جوتہ میرے ہاتھ سے چھین لیا اور خود لے چلے میں نے نرمی سے منع کیا کہ آپ نہ لے چلئے بلکہ مجھ کو دے دیجئے کیونکہ میرا معمول ہے کہ جن لوگوں سے میری بے تکلفی نہیں ہوتی ان سے میں کوئی اپنی خدمت نہیں لیتا کیونکہ ایک اجنبی شخص سے خدمت لینے میں تبعا شرم معلوم ہوتی ہے اور طبیعت پر گرانی ہوتی ہے مگر انہوں نے نہ مانا آخر جب میں مجبور ہوگیا تو میں نے کہا کہ اچھا صاحب آپ نہ