ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
ہے مجھے قبض بطنی ۔ (206) حضرت حکیم الامت کی لطافت طبع ایک طالب جنہوں نے تصوف کی کتابیں بالخصوص حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف بہت دیکھی ہیں ان کے ذکر پر فرمایا کہ تصوف کی کتابیں دیکھنا بس ایسا ہی ہے جیسے الوان نعمت سے دیکھ کر گلگلے پکانا یہ صاحب تصوف کی مختلف کتابیں دیکھ کر بہت الجھنون اور شبہات میں پڑھ گئے تھے اور بہت سے علماء سے گفتگو کرنے کے بعد بھی ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی ۔ جس روز حضرت اقدس سے رخصت ہونے والے تھے اس روز باوجود غایت ضعف تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک مسلسل نہایت مفصل و مدلل اور نہایت موثر تقریر فرمائی جس سے ان صاحب کے تمام شبہات بالکل دور ہوگئے اور ساری الجھنیں جاتی رہیں ۔ اس کے ذکر پر فرمایا کہ میرا کلام اس زمانہ کے مناسب ہے ۔ اور پہلے حضرات کا اس زمانہ کے موافق تھا ۔ اور مناسبت ہی سے نفع ہوتا ہے اس سے میرے کلام کی کوئی ترجیح ثابت نہیں ہوتی ۔ مولوی عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے مجھ سے ایک بڑا مشکل سوال کیا ۔لکھا کہ کلام مجید کا انگریزی ترجمہ کرنے میں جتنی مجھ کو مدد بیان القرآن (تفسیر حضرت اقدس مدظلہم العالی ) سے ملی اتنی دوسری تفسیروں سے بھی نہیں ملی یہاں تک کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ (استاد حضرت اقدس مدظلہم العالٰی ) کے ترجمہ سے بھی اتنی مدد نہیں ملی ۔ اب یہاں بڑا مشکل سوال تھا کہ اگر ان کی تکذیب کرتا ہوں تو یہ ان کا بیان غلط ثابت ہوتا ہے حالانکہ وہ ان کا مشاہدہ تھا کیونکہ ان کو اعانت میری ہی تفسیر سے زیادہ ملی تھی اور اگر ان کے قول کی تصدیق کرتا ہوں تو یہ ایک قسم کا دعوٰی ہے ۔ غرض انہوں نے لکھا کہ مجھے جو نفع بیان القرآن سے ہوا وہ کسی سے نہیں ہوا ۔ اب غلبہ تواضع کا تو یہ مقتضاء تھا کہ لکھ دیتا لاحول ولاقوۃ کہان میں وہ حضرات مگر اس کے عبدالماجد تو تسلیم نہ کرتے کیونکہ وہ ان کے مشاہدہ کے خلاف ہوتا اور اگر ان کے قول کی علی الاطلاق تصدیق کرتا تو یہ بدتمیزی کی بات تھی ۔ الحمدللہ اللہ تعالٰی کی جانب سے ایک بہت اچھا جواب ذہن میں آیا جس میں دونوں پہلوؤں کی رعایت تھی ۔ میں نے لکھا کہ نفع کامدار مناسبت پر ہے چھوٹوں کو چھوٹوں سے مناسبت ہوتی ہے چھوٹا ہوں آپ بھی چھوٹے ہیں اس لئے آپ کو میرے کلام سے زیادہ نفع ہوا اور حضرت مولانا محمود حسن صاحب بڑے ہیں ان سے بڑوں کو نفع پہنچتا ہے ۔ اس