ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
انبیاء کے سامنے یہ سب گرد تھے اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ تو انبیاء بنالیتے ـ انبیاء کے حقیقی علوم کے سامنے فلاسفہ کی رسمی لفظی تحقیقات میں کیا رکھا ہے ـ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ایک شخص ہے اس کو مٹھائی کی پوری فہرست یاد ہے اور ایک کے پاس مٹھائی ہر قسم کی ہے یہاں سے اٹھائی کھا لی وہاں سے اٹھائی کھا لی مگر مٹھائیوں کے نام اس کو یاد نہیں تو اب قابل غور یہ بات ہے کہ آیا مٹھائیوں کا مالک محتاج ہے نام والے کا یا نام والا محتاج ہے مٹھائی والے کا اسی طرح جس پر حق تعالی اپنے حبیب کی امت میں سے اپنا فضل فرماتے ہیں اس کو بھی مشابہ انبیاء علیہم السلام کے علوم عطاء فرمادیتے ہیں ـ دیکھ لیجئے ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ اصطاحی عالم نہ تھے مگر حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا ان سے خادمیت کا تعلق خود بتلا رہا ہے کہ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں کوئی چیز تو ضرور تھی کہ جس کی وجہ سے اور جس کی طلب میں ان حضرات نے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق پیدا کیا ـ بات یہ ہے کہ ہم اہل الفاظ ہیں اور حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ اہل معنی ہیں ـ الفاظ سے سکون نہیں ہوا کرتا سکون تو حقیقت پر پہنچنے سے ہوتا ہے جب علماء ظاہر اور اولیاء اللہ کے علوم میں اس قدر فرق ہے تو انبیاء علیہم السلام تو کیا کچھ ہوں گے ـ ( 45 ) غرض کی قیمت فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے نہ طلب کا اظہار ـ نہ مطلوب کی غایت ـ نہ اپنی ضروری حالات کا تعارف ـ نہ پہلی کبھی ملاقات جس سے احتمال حالات کی اجمالی اطلاع ہو بس ایک دم سے لکھ دیا کہ مجھ کو بیعت کو لو ـ میں نے لکھ دیا ہے کہ خواہ مخواہ ـ کیونکہ اسی خشک درخواست کا یہی جواب ہے ـ اس پر فرمایا کہ اپنی غرض کے پورا کرنے کو لوگ اصل سمجھتے ہیں اور جس سے غرض کا تعلق ہے اس کی کسی بات کی بھی رعایت نہیں کرتے کہ اس پر ہمارے اس طرز کا کیا اثر ہوگا اس کو محض اپنا تابع سمجھتے ہیں ـ اس غرض پر ایک لطیفہ یاد آیا ـ کانپور میں مدرسہ کے لئے ایک زمین خریدنا تھی جس وقت سودا ہوا تو مالک زمین نے دو ہزار روپیہ کہے میں نے کہا کہ زمین کی قیمت تو دو ہزار نہیں ـ البتہ غرض کی قیمت ہے دو ہزار مہتمم صاحب نے کہا کہ غرض کے عدد بھی اتفاق سے دو ہی ہزار ہیں ـ