ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
یہ ہے کہ وہاں تو مجھ کو مقید ہونا پڑتا اور ضرور گفتگو کرنی پڑتی اور یہاں مجھے بالکل آزادی تھی جی چاہتا تقریر کرتا جی چاہتا خاموش رہتا اور تقریر میں بھی آزادی تھی کہ جب جی چاہتا منقطع کر دیتا ۔ اس آزادی میں طبعیت کھلی رہی کہ اتنی طویل تقریر کا بھی کوئی تعب نہیں ہوا مجھے مقید ہونے سے تعب ہوتا ہے اور طبعیت کند ہو جاتی ہے اور اگر آزادی ہوتو پھر طبعیت کھلتی ہے ۔ ( 251 ) ہر بات لکھنے کے قابل نہیں ہوتی ملفوظ سابق میں سے متعدد حکایات کو جو زبانی بیان میں محض بدرجہ تائید نقل فرمائی تھیں اور احقر جامع نے ان کو میں تھریر میں ضبط کرلیا تھا چونکہ ان میں بعض واقعات ایسے بھی تھے جن سے عوام کو غلط فہمی ہونے کا احتمال تھا ان کو نظر اصلاح میں حذف فرمادیا گیا ۔ بعد کو احقر سے فرمایا کہ ہربات لکھنے کے قابل نہیں ہوا کرتی اسی واسطے میں کہا کرتا ہوں کہ ملفوظات لکھنے کے لئے بڑے سلیقہ کی ضرورت ہے کیونکہ بعضی باتیں محض مزاح میں کہہ دی جاتی ہیں بعضے غامض حقائق اپنے فہیم خدام کے سامنے ایسے بھی بیان کردیئے جاتے ہیں جن کا عوام تک پہنچانا بوجہ اسکے کہ ان کے فہم سے بالاتر ہیں خلاف مصلحت ہوتا ہے چنانچہ سینکڑوں باتیں مجھ کو ایسی معلوم ہیں جن کو میں کسی کے سامنے نہیں بیان کرتا ۔ بعض تذکروں کو جو میں نے دیکھا تو ان میں میں نے بہت سے ایسے ملفوظات پائے جو ہرگز اس قابل نہ تھے کہ ان کہ ضبط کر کے شائع کیا جاتا ۔ بعضی بہت ہی بوچ اور لچر حکایات بھی ان میں درج کردی گئی ہیں حالانکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محض مزاح میں وہ بیان کردی گئی ہوں گی ۔ بس صرف ایسے ہی ملفوظات منضبط کرنے چاہیئں جن میں کوئی غلطی یا عملی فائدہ ہو ۔ ( 252 ) حضرت تھانوی کا طبعی خلاصہ تھا کہ ہر کام ہمہ وجوہ پورا فرماتے حضرت ابن منصور رحمتہ اللہ علیہ کے بعض اشعار کی شرح حضرت اقدس مد ظلہم العالی اس رسالہ میں منظم فرمانا چاہتے تھے جو ابن منصور کے حالات کے متعلق حضرت اقدس نے مولانا ظفر احمد صاحب سے لکھوایا ہے ۔ حضرت اقدس کا ہمیشہ سے یہ طبعی خاصہ ہے کہ جو کام کرنا ہوتا ہے اس کو ہمیں وجوہ پورا کرنے کا سخت تقاضا قلب میں پیدا ہوجاتا ہے اور جب تک اس کی تکمیل نہیں ہوجاتی طبعیت بے چین رہتی ہے ۔ چنانچہ مذکورہ بالا اشعار کے ایک بڑے حصہ کی شرح لکھنے کا بھی اتنا شدید تقاجا ہوا کہ باوجود سخت نقاہت اور طبیب کی ممانعت کے بھی