ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
آرزوئے وصال پردہ ہے آرزو ہے کہ آروزو نہ رہے ( 139 ) معیت ھق تعالیٰ شانہ رونق بڑھانے کے لئے کافی ہے فرمایا جو لوگ مدعی تصوف ہیں اور مقتدا کہلاتے ہیں اور اپنے مجمع کی رونق بڑھانا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے اپنے پاس والوں کو امر بالمعروف اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ مبادایہ لوگ ناخوش ہو کر ہم کو لوگوں میں سخت نہ مشہور کردیں اور مبادا ہمارے پاس یہ لوگ آنا بند کردیں تو ان کو چاہیے کہ سو چیں کہ جب وہ قبر میں تن تنہا ہوں گے اور کوئی ان کا مونس و غمگسار نہ ہوگا تو کیا اس وقت بھی اس مجمع سے رونق حاصل کی جاکسے گی اگر جواب نفی میں ہوتو پھر جس چیز سے وہاں رونق حاصل ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت بس اسی چیز سے یہاں بھی اپنی رونق بڑھانی چاہیے - بس وہ چیز یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت رونق بڑھانے کے لئے کافی ہے لہذا جس شخص کے اندر جو بات قابل اصلاح ہو اس کی اصلاح کی طرف سے بے پرواہی نہ کرنا چاہیے خواہ مجمع گھٹے یا بڑھے - ( 140 ) صوفیاے محققین تصوف کے مجتہد ہیں فرمایا صوفیائے محققین اپنے فن یعنی تصوف کے اندر مجتہد ہوتے ہیں لہٰذا اگر کسی محقق صوفی کا قول تدابیر اصلاح کے متعلق یا احوال و مقامات باطنہ کے متعلق علماء ظاہر میں سے کسی کے خلاف دیکھا جاوے تو علی الاطلاق رد نہیں کردینا چاہیے بلکہ اس کے اندر تفصیل ہے وہ یہ کہ اگر وہ قول کسی نص کا مصادم ہو اور ایسا مصادم ہو کہ اس قول کی کوئی ایسی تاویل بھی نہ ہو سکتی ہو کہ جس سے وہ قول نصوص کے موافق ہوجائے تب وہ قول مردود ہے اور اگر وہ قول نصوص کے تو مخالف نہیں مگر آئمہ مجتہدین کی تصریحات کے مخالف ہے تو صوفیاء محققین ے ایسے قول کو مردود نہیں کہہ سکتے لیکن مرجوح ضرور کہیں گے لہذا گر صوفیاء کے اس قول پر کوئی شدت محبت پر عمل کر لے تو اس پر کوئی ملامت نہیں بلکہ گجنائش ہے مگر راجح وہی قول رہے گا کہ جو آئمہ مجتہدین کا ہے - ( 141 ) کیا عوام کے خلااف ملامت سے مستحسن عمل ترک کیا جاسکتا ہے ایک اہل علم نے سوال کیا کہ اگر کوئی فعل شرعا فی نفسہ تو قبیح نہ ہو بلکہ محمود اور مستحسن