ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
گیا ـ (93) قاتل کی سزا ایک صاحب جن سے کچھ غلطی ہو گئی تھی اور خیال تھا کہ ان کی اس غلطی پر ان کو کچھ تنبیہ نہ کی گئی تو ان کی اصلاح نہ ہو گی اور آئندہ پھر یہ ایسی بلکہ اس سے بڑی غلطی کریں گے ان کے متعلق حضرت والا نے مجلس میں ارشاد فرمایا کہ ان کا خط آیا ہے اور انہوں نے یہاں میرے پاس آنے کی اجازت مانگی ہے تو میں نے اس اجازت کی درخواست کے جواب میں صرف اتنا لکھ دیا ہے کہ تمہاری سزا تو یہی ہے کہ تم کو آنے کی اجازت نہ دی جاوے ـ پھر حضرت والا نے حاضرین سے فرمایا کہ گو میں نے ان کو یہ لکھا ہے کہ تمہاری سزا یہی ہے مگر اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ یہ سزا ان کو دی بھی جائے گی اور ان کو حاضری سے منع کر دیا جاوے گا بلکہ مقصود اس لکھنے سے میرا یہ ہے کہ تمہارے جرم اصلی کی سزا تو یہی ہے گو یہ سزا تم کو دونگا نہیں ـ پھر حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ یہاں سے قرآن شریف کی ایک آیت کا مطلب بھی سمجھ میں آ گیا ہو گا وہ آیت یہ ہے کہ حق تعالی فرماتے ہیں ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاءہ جھمنم خالدا فیھا الایۃ کہ اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو عمدا بلاوجہ قتل کر دے تو قاتل کی سزا یہ ہے کہ وہ قاتل ہمیشہ دوزخ میں رہے گا تو اس کا مطلب بعض لوگوں نے تو یہی سمجھا ہے جو ظاہرا آیت کے الفاط سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ـ لیکن محققین نے دوسرا مطلب لیا ہے یعنی اسی آیت میں جو حق تعالی نے فجزاءہ فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یعنی اس قاتل کی فی نفسہ تو سزا یہی تھی کہ قاتل ہمیشہ دوزخ میں رہے لیکن یہ سزادی نہیں جائے گی بلکہ اس سے ہلکی سزا دی جاوے گی کہ ایک عرصہ دراز تک قاتل کو جہنم میں رکھا جاوے گا ـ جیسے کہ دوسری نصوص قطعیہ میں تصریح ہے البتہ بقول مشہور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اسی کے قائل ہیں کہ قاتل عمدا کو خلود ہو گا لیکن ان سے تاویل یا رجوع بھی منقول ہے یہ بات طالب علموں کے سمجھنے کی ہے ـ ( 94 ) نقصان کے وقت صبر و رضا کے دھیان کی ضرورت فرمایا ایک صاحب کا خط آیا ہے اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میری یہ حالت ہے کہ جب میرا کوئی دنیوی نقصان ہو جاتا ہے تو اس نقصان کی وجہ سے میرے دل میں ایک فکر سی