ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
ہو گی اور مجھ کو اس کا تحمل بھی عطا فرما دیا جائے گا لہٰذا مجھ کو چاہئے کہ میں اس کو قبول کر لوں اور عذر نہ کروں تو ارشاد فرمای کہ چونکہ حضرت لقمان علیہ السلام نبوت کو قبول فرما لیتے تو اس صورت میں نبوت کا حصول حضرت لقمان کے قصد و اختیار سے ہوتا نہ کہ بلا اختیار دوسرے جب ان کو نبوت پیش ہوئی تو ایک تو انہوں نے اپنے اندر اس کا تحمل نہ دیکھا پھر ان کو اختیار بھی قبول و عدم قبول کا دے دیا گیا تھا تو اس لئے وہ نبوت کا تحمل عطا نہ ہونے سے وجدانا یہی سمجھے کہ حق تعالی کے نزدیک میرے لئے یہی زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اس خدمت سے عذر کر دوں اور بجائے نبوت کے حکمت کو اپنے لئے اختیار کروں چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور حق تعالی کی مزید خوشنودی کی خاطر نبوت جیسی نعمت سے بھی عذر کر دیا اگر یہ شبہ ہو کہ جب غیب سے حضرت لقمان علیہ السلام کے لئے ترجیح اسی کو تھی کہ وہ نبوت کو قبول نہ کریں اور حضرت لقمان علیہ السلام نے نبوت عطا ہونے کے لئے کوئی درخواست بھی نہ کی تھی تو پھر حضرت لقمان علیہ السلام پر نبوت پیش ہی کیوں ہوئی تو جواب اس کا یہ ہے کہ ممکن ہے اس کے ذریعہ سے حضرت لقمان کے عجز و تواضع کا تواضع کا امتحان مقصود ہو ـ چناچہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور جس طرح ان نوجوان طالب علم کو یہ حالات پیش آئے تھے اور اس وقت انہوں نے اپنی عقل پر اعتماد کے بجائے اپنے مربی کی تعلیم کا اتباع کیا تھا اور خطرہ سے محفوظ رہے ـ اور اگر یہ اس وقت خودرائی سے کام لیتے اور اپنی عقل و فہم پر اعتماد کر کے اپنی مربی کی تعلیم کا اتباع نہ کرتے تو اپنے دین و دنیا دونوں کا نقصان کرتے اسی طرح ہر مبتدی کو جب کوئی ایسی حالت جدید پیش آئے بھی چاہئے کہ وہ محض اپنی رائے سے اپنی اس حالت کا اتباع نہ کر بیٹھے بلکہ اپنے مربی کو اس کی اطلاع کرے پھر وہ مربی جو کچھ اس کے لئے تجویز کرے اس پر عمل کرے ـ اور چونکہ مبتدی ان حالات کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا اس لئے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس حالت کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے حالانکہ اس حالت کے ظاہری مقتضا پر عمل کرنا اس کے لئے مضر ہوتا ہے مگر چونکہ وہ اپنے نزدیک اس حالت کو اپنے لئے مفید سجھے ہوئے ہے اس لئے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس حالت کے ظاہری مقتضاء پر عمل نہ کر بیٹھے جس کی وجہ سے کسی ظاہری یا باطنی مصیبت میں مبتلا ہو جائے اور کبھی