ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
و الہام کوئی حجت نہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ کشف و الہام کے خلاف کرنا ہر وقت جائز ہے تو یہاں تو کشف و الہام کے خلاف کرنے کا شروع ہی سے اختیار دیدیا گیا تھا اس لئے ہر موقعہ پر اب جدید اجازت اختیار کی ضرورت نہ رہی تھی بخلاف سابقہ کے ککہ ان کے لئے کشف و الہام جبکہ وہ وحی کے خلاف نہ ہو حجت تھا اس لئے وہاں اجازت کے ہر موقعہ پر جدید اجازت کی ضرورت تھی اس لئے حضرت لقمان سے تو اس موقعہ پر کہہ دیا گیا کہ تم کو ان دونوں میں سے ایک عذر کر دینے کی اجازت ہے اور یہاں ان طالب علم کے لئے اجازت کلیہ سابقہ ہی کافی سمجھی گئی بلکہ اگر غور کر کے دیکھا جاوے تو یہاں ان طالب علم کو عذر کا زیادہ موقع تھا بہ نسبت حضرت لقمان علیہ السلام کے کیونکہ حضرت لقمان کو تو نبوت پیش کی گئی تھی کہ حکمت تو کیا چیز ہے اس کے درجہ کو کوئی چیز بھی نہیں پہنچ سکتی تو اس کے عطا نہ ہونے سے درجات میں جو کمی رہتی تو اس کی تلافی کوئی دوسری چیز کر ہی نہیں سکتی تھی بخلاف تکوینی خدمت کا منظور کرنا تمارے لئے مضر ہے اور اس کے اندر صرف تمہاری دنیا کا نقصان ہے بلکہ دینی حیثیت سے بھی تم کو اس خدمت کا قبول کر لینا مناسب نہیں لہٰذا تم کو چاہئے کہ تم اس خدمت کو منظور نہ کرو اور تم یہ کرو کہ اگر اب کی بار پھر ایسا ہو تو تم نہایت ادب سے یہ عرض کرو کہ حضور میں اس خدمت کے قابل اپنے آپ کو نہیں پاتا میرے اندر اس کا تحمل نہیں لہٰذا مجھ کو معاف فرمایا جاوے چناچہ انہوں نے اس پر عمل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ باطمنان تحصیل علم دین میں مشغول رہے اور آج بفضلہ تعالی وہ عالم بھی ہیں اور ہادی بھی ہیں لہٰذا ہر صاحب القاء پر لازم ہے کہ اگر اس کو خواب و کشف و الہام میں کوئی بات ایسی القاء ہو کہ جو خلاف شریعت ہو تو اس کی طرف تو التفات ہی نہ کرے اور اگر خلاف شریعت نہ ہو مگر دینی قواعد سے اس کے مناسب نہ ہو تو عذر کر دے مگر ادب کے ساتھ عذر کرے کوئی کلمہ بے ادبی کا زبان سے نہ نکلے