ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کیا جاوے تو اچھا ہے تو صحابہ تو جان نثار تھے انہوں نے فوار حکم کی تعمیل کی اور اس سال یہ عمل نہ کیا لیکن جب فصل آئی تو پھل بہت کم آیا ـ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا کہ اس سال پھل بہت کم آیا ہے تو اس وقت وہ شبہ جو شگون کا تھا رفع ہو گیا اور اطمنان ہو گیا کہ یہ کوئی ٹوٹکا نہیں بلکہ یہ ایک طبعی فعل ہے جس کے اندر حق تعالی نے ایک خاصیت رکھی ہے زیادتی پیداوار کی لہٰذا اس میں کچھ برائی نہیں ـ چناچہ اس کے بعد ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کو اس کی اجازت دیدی اور ارشاد فرمایا کہ دیکھو اگر میں تم کو کسی دین کی بات کا حکم دوں تب تو تم پر اس کا امتثال واجب ہے اور اگر کوئی حکم نہ دوں بلکہ تم سے تمہارے دنیوی امور کے متعلق بطور مشورہ کے کوئی بات کہوں تو انتم اعلم بامور دنیا کم تو گو ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فن کاشتکاری سے مناسبت نہ تھی مگر نعوذباللہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس سے ہمارے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں کوئی نقص آ گیا ـ کیا انبیاء پر یہ بھی ضرور ہے کہ وہ کاشتکاری سے واقف ہوں ـ کیا ایک ویسرائے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ جوتے گانٹھنا جانتا ہو ـ البتہ انبیاء علیہم السلام کے احکام سے واقف ہونا ضروری ہے سو احکام کا علم ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بکمالہ حاصل تھا اب رہے بعض دوسرے دنیوی امور مثلا فن کاشتکاری سو فن کاشتکاری کا نہ حضور کے منصب سے کوئی تعلق تھا اور نہ اس سے نا واقفی حضور کے لئے موجب نقص ہو سکتی ہے یا جیسے حضرت شمویل کو سیاست سے مناسبت نہ تھی اور اسی وجہ سے حضرت شمویل کو سیاسیات سے الگ رکھا گیا اور بنی اسرائیل پر بادشاہ نہ بنایا گیا باوجودیکہ حضرت شمویل کی بادشاہت میں کسی کو اختلاف بھی نہ ہوتا تھا اور بجائے حضرت شمویل کے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا گیا حالانکہ طالوت کے بادشاہ بنائے جانے کے بارہ میں بنی اسرائیل کا اختلاف بھی ظاہر ہو گیا چناچہ ان کا مقولہ طالوت کے متعلق قرآن پاک میں موجود ہے ولم یؤت سعۃ من المال مگر بنی اسرائیل کے اس اختلاف کی بھی پروا نہ کی گئی اور طالوت کی ہی بادشاہ تجویز کیا گیا ـ غرض ہر شخص کو ہر فن سے مناسبت ہونا ضروری نہیں اسی طرح ہر نبی اور ہر مولوی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کو سیاست سے مناسبت ہو اور اصول تمدن کی رو سے یہ ضروری قرار پا چکا ہے کہ ہر شخص کے سپرد وہ کام کیا جانا چاہئے جس سے اس کو مناسبت ہو تو اب اگر ہر مولوی کے لئے سیاسیات میں دخل دینا ضروری قرار دیا جاوے گا تو لازم آئے گا کہ ان کے سپرد