ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
ایسا کام کیا گیا جس سے ان کو مناسبت نہ تھی اور یہ اصول تمدن کے بھی بالکل خلاف ہے ـ غرض ثابت ہو گیا اور اسی طرح مولویت کے لئے سیاست کو لازمی قرار دینا جیسے نقلا باطل ہے اسی طرح عقلا مذموم ہے اور علماء پر یہ اعتراض کہ وہ سیاسیات میں کیوں شرکت نہیں کرتے شرعی اور تمدنی دونوں حیثیت سے لغو ہے اور افسوس ہے کہ علماء کے لئے سیاسیات میں شرکت تو ضروری قرار دی جاتی ہے مگر جو کام کہ علماء کے فرائض منصبی میں داخل ہے وہ کام علماء سے لیا نہیں جاتا ـ اور وہ کام یہ ہے کہ قانون شریعت میں حق تعالی کے اوامر و نہی کا تعلق جیسے عبادات سے ہے اسی طرح سیاسیات سے بھی ہے اور جیسے عبادات کے اندر بعض امور جائز ہیں اور بعض نا جائز مثلا نماز فرض ہے مگر بلا وضو سجدہ کرنا حرام ہے اسی طرح سیاسیات کے اندر بعض امور جائز بعض نا جائز تو وہ لوگ سیاسیات میں مشغول ہیں ان پر یہ ضروری ہے کہ جب وہ کوئی نیا کام کریں تو اول علماء سے استفتاء لے کر کیا کریں کہ یہ کام مذہب کے تو خلاف نہیں ـ پھر جب کہ علماء سے ایسا استفتاء کیا جائے تو اب علماء کا کام یہ ہے کہ مذہبی کتابوں میں غور فکر کر کے ان جزئیات کا حکم معلوم کریں اور ان استفتوں کا جواب دیں تاکہ جو تدبیر سیاسی جائز ہوں ان پر عمل کیا جا سکے اور جو تدابیر سیاسی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہوں ان سے بچا جا سکے ـ اور اسی سلسلے میں حدیث انتم اعلم بامور دنیا کم کی شرح کے ذیل میں فرمایا کہ اس ثابت ہوا کہ دنیوی فنون کے اندر ہو سکتا ہے کہ غیر نبی ، نبی سے اعلم ہو جائے اور امور دنیا کے اندر جیسے فن کاشتکاری داخل ہے اسی طرح فن سیاست بھی ـ تو جیسے غیر نبی فن کاشتکاری میں نبی سے اعلم ہو سکتا ہے اسی طرح فن سیاست میں ممکن ہے کہ غیر نبی نبی سے اعلم ہو جائے اور جیسے اگر کوئی کاشتکار فن کاشتکاری میں نبی سے اعلم ہو تو یہ بات اس نبی کے لئے موجب نقص نہ ہو گی ـ کیونکہ فن کاشتکاری کوئی کمالات نبوت میں سے نہیں ـ اسی طرح اگر کوئی شخص فن سیاست میں نبی سے اعلم ہو جائے تو اس سے بھی نبی کے کمالات میں کچھ نقص نہ آئے گا پس جبکہ فن سیاست میں غیر نبی اعلم ہو سکتا ہے نبی سے اور اس سے اس نبی کی فضیلت میں کچھ کمی نہ ہو گی تو ایک عالم کے لئے تو یہ امر بدرجہ اولی ممکن ہے کہ فن سیاست میں کوئی غیر عالم اس سے بڑھ جائے اور اس سے عالم کی فضیلت میں کوئی کمی نہ ہو گی ـ ( اور اگر اس استدلال پر یہ شبہ ہو کہ ہمارا مستدل قصہ جو قرآن میں مذکور ہے یہ شرائع من قبلنا میں داخل ہے اور شرائع من قبلنا ہمارے اوپر حجت نہیں تو جواب اس