ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
اس انگوٹھی کا نگین عادۃ سیاہ رنگ کا رکھا جاتا ہے کیونکہ سیاہ رنگ کے اندر خاصیت ہے نظر کی شعاعوں کے مجتمع کرنے کی اور یہ اجتماع معین ہوتا ہے خیال کی یکسوئی کی حالت میں ذہن زیادہ کام کرتا ہے بخلاف سفید رنگ کے کہ اس سے شعاعوں کو انتشار ہوتا ہے جس کی وجہ سے معمول کا متخیلہ منتشر ہو کر پورے طور پر کام نہیں کرتا پھر فرمایا کہ توجہ متعارف اور تصرفات جن کو لوگ آج کل بزرگی میں داخل سمجھتے ہیں ان کا منشاء بھی یہی قوت خیالیہ ہے کہ شیخ کی قوت خیالیہ مرید کے اندر موثر ہوتی ہے اور چونکہ ان امور کا منشا قوت خیالیہ ہے نہ کہ قرب و قبول عند اللہ یعنی اس کام کو ہر وہ شخص کر سکتا ہے جس کے خیال میں ایسے امور کو ہمارے بزرگوں نے کبھی کمال نہیں سمجھا اور یہ بات نہ تھی کہ ایسے امور میں ہمارے بزرگوں کو دخل نہ تھا بلکہ خود ہم نے بعض حضرات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ان کو ایسے امور میں بھی کافی دسترس تھی چناچہ ہمارے استاد حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک صاحب دہلی سے تشریف لائے تھے تو مولانا ان کو بعد مغرب توجہ دیا کرتے تھے اور وہ صاحب مچھلی کی طرح تڑپا کرتے تھے مولانا تو توجہ دے کر ان کو جدا کر دیتے تھے مگر ان صاحب پر مولانا کی اس توجہ کا بہت دیر تک برابر اثر رہتا تھا ہم لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں ان صاحب کے چوٹ نہ لگ جائے اس لئے ہم ان کو پکڑتے تھے تو مولانا نے ہم کو منع فرمایا کہ پکڑو مت ہاں اس کا خیال رکھو کہ یہ کہیں اونچے نیچے میں نہ جا پڑیں باقی رہی چوٹ جس کا تم کو اندیشہ ہے تو چوٹ تو ان کے لگ چکی ہے اب کیا لگے گی ـ پھر حکیم الامتہ دام ظلہم العالی نے فرمایا کہ اس عمل توجہ سے توجہ دینے والے کے قوی طبعیہ پر بہت اثر پڑتا ہے حتے کہ توجہ دینے والے کے بیمار پڑنے کا اندیشہ ہو جاتا ہے چناچہ مدرسہ دیوبند میں ہمارے قیام کے زمانہ میں مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم مدرسہ مدرسہ کے طلبہ کو توجہ دیا کرتے تھے تو مولانا رفیع الدین صاحب بیمار پڑ گئے جب مولانا محمد یعقوب صاحب کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مولانا رفیع الدین صاحب کو ایسا نہ کرنا چاہیے یہ طلبہ یہاں مدرسہ میں پڑھنے آئے ہیں یا توجہ لینے آئے ہیں ـ پھر حضرت حیم الامتہ نے جو اوپر عمل مذکور وغیرہ کے متعلق واقعات اور اپنے تجربے بیان فرمائے ہیں ان کے متعلق فرمایا کہ ان لہولعب سے یہ فائدہ ہوا کہ یہ معلوم ہو گیا