ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
صاحب کا خط آیا جن کا دعوی تھا کہ مجھ کو ارواح سے ملاقات ہوتی ہے اور سوالات کا جواب ارواح سے معلوم کر لیتا ہوں تو انہوں نے لکھا کہ بعض مرتبہ کسی امر میں تردد ہوتا ہے اور اس کا جواب میں اسی عمل کے ذریعہ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں تو اس کا جواب کچھ نہیں معلوم ہوتا نہ نفی میں نہ اثبات میں ـ میں کہتا ہوں کہ یہی دلیل ہے اس کی کہ اس عمل کے ذریعہ سے جو جواب معلوم ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کوئی روح آ کر جواب دیتی ہے بلکہ یہ سب اس عامل کی قوت متخیلہ کا اثر ہوتا ہے اس لئے جس بات میں تردد ہوتا ہے تو ایک خیال دوسرے کی تاثیر کو مانع ہو جاتا ہے اور اس وقت دونوں خیالوں میں سے کسی کا اثر بھی خارج میں نہیں پڑتا اس لئے جواب بھی کچھ نہیں آتا اور اگر وہ جواب روح کا ہوتا تو اس جواب پر اس عامل کے تردد کا کوئی اثر نہ پڑتا کیونکہ روح کے علم میں اس کے تردد کا کیا دخل بلکہ عین تردد کی حالت میں بھی اسی طرح جواب مل جاتا جیسے عدم تردد کی حالت میں ملتا ـ پھر فرمایا کہ یہی حال طلسماتی انگوٹھیوں کا بھی ہے کہ اس کے متعلق جو دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر چور کا پتہ چل جاتا ہے بالکل غلط ہے بلکہ یہ سب اسی قوت خیالیہ کا اثر ہوتا ہے کہ پاس بیٹھنے والے جو ہوتے ہیں انہی کی قوت خیالیہ کا اثر اس انگوٹھی کے دیکھنے والے پر پڑتا ہے چناچہ ان کے پاس والوں کو جس شخص پر شبہ ہوتا ہے اس کی صورت اس انگوٹھی میں دیکھنے والے کو نظر آ جاتی ہے پس سمجھ لیا جاتا ہے کہ انگوٹھی میں کوئی اثر یا قوت ہے جس سے چور کا پتہ لگ گیا حالانکہ وہ سب ان کے پاس بیٹھنے والوں کے متخیلہ کا عکس ہوتا ہے ـ ایک شخص کے متخیلہ کا دوسرے پر عکس پڑنے کی اگرچہ اس کا قصد بھی نہ ہو ـ ایسی مثال ہے کہ جیسے اگر کوئی شخص آئینہ کے پاس کھڑا ہو تو اس کی صورت کا عکس آئینہ پر پڑے گا اگرچہ اس شخص کو اس کی خبر بھی نہ ہو کہ میری صورت کا عکس آئینہ پر پڑ رہا ہے پس اسی طرح جب ایک ذہن کی محاذاۃ دوسرے ذہن سے ہوتی ہے تو ایک کا عکس دوسرے پر خود بخود پڑتا ہے کیونکہ جیسے آئینہ میں خاصیت ہے انعکاس کی اسی طرح حق تعالی نے اذہان کے اندر بھی خاصیت رکھی ہے انعکاس اور انطباع کی اور اسی خیال کی تقویت کے لئے اس انگوٹھی میں دیکھنے والا ایسا تجویز کیا جاتا ہے جو بچہ ہو کیونکہ بچہ کا متخیلہ مختلف خیالات سے خالی ہونے کے سبب اور سادگی کے سبب زیادہ اثر قبول کرتا ہے بہ نسبت کسی بڑے شخص کے جس کے ذہن میں سزاجت کم ہو اور یہی حکمت ہے اس میں کہ