ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
اضطراریہ میں بھی اللہ تعالی کی رحمت کا مشاہدہ فرمایئے کہ کس طرح امت کو یہ فضیلت اتباع کی عطا فرمائی میں اس کی بعض مثالیں عرض کرتا ہوں ۔ مثلا امت سے نماز میں سہو صادر ہوتا ہے جو غیر اختیاری چیز ہے ۔ اس میں یہ فضیلت اس طرح حاصل ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سہو صادر کرایا گیا حتی کہ بعض روایتوں میں آیا ہے انی لانسی (من المجرد ) وانستی (من المزید ) لا سن (کذا فی مجمع الفوائد عن مالک ) یعنی حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے نسیان میں جو ہوتاہے تو وہ میری طرف سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے مجھ پر نسیان طاری کرایا جاتا ہے مجھ سے یہ سنت جاری ہو اور جس نماز میں سہو اور نسیان ہو اس کومیرے امتی ناقص نہ سمجھیں ۔ دوسری مثال ۔ عمر بھر ایک مرتبہ حضور کی نماز بھی قضا کرادی گئی اگر کبھی کسی کی بلا قصد نماز قضا ہوجائے تب بھی امت دل شکستہ نہ ہو ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ طبعی قلق بھی نہ ہو بلکہ یہ سوچ کر عقلا دل کی تسلی کرلے کہ اس میں بھی مجھے غلامی کا شرف حاصل ہے کیونکہ ایک مرتبہ ہمارے آقا کے بھی نماز قضا ہوگئی تھی ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک دفعہ میرے سامنے یہی مسئلہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسیان اور سہو کا پیش کیا گیا سوال یہ کیا گیا کہ جس چیز کی طرف برابر توجہ رکھی جائے اس میں بھول ہو نہیں سکتی ۔ تو حضور کی جو سہو ہوا تو کیا سہوہوا کیا حضور کو بھی نماز کے سوا اور کسی طرف توجہ تھی ۔ میں نے جواب دیا کہ اس میں استبعاد کیا ہے مگر اتنا فرق ہے کہ ہمیں جب سہو ہوتا ہے ۔ تو ایسی چیز کی جوجہ ہوتی ہے جو نماز کے کم درجہ کی چیز ہوتی ہے اور حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو امر باعث سہو ہو تا تھا وہ نماز سے زیادہ ارفع اور اعلی چیز ہے یعنی ذات حق ذات یہ فرق ہے دونوں سہو میں اھ ۔ اس پر احقر نے یہ اشکال پیش کی کہ حضور کے نسیان کے مواقع تو بہت کم ہوتے تھے تو گو افضل چیز کی طرف توجہ صرف گاہ گاہ ہوتی تھی حالانکہ حضور کی شایان شان یہ تھا کہ اکمل حالت بھی دائمہ رہتی ۔ اس پر فرمایا کہ حضور کی توجہ الی الحق دونوں صورتوں میں اکمل ہی ہوتی تھی ۔ صرف فرق یہ تھا کہ ایک صورت میں بواسطہ نماز کے ہوتی تھی اور ایک میں بلا واسطہ ۔ جو توجہ بواسطہ تھی وہ بھی توجہ الی الحق ہی تھی جیسے ایک دفعہ تو جمال محبوب کا مشاہدہ بواسطہ مرات کے ہوتاہے اور ایک دفعہ بلا واسطہ ہوتا ہے تو ان دونوں میں توجہ الی المحبوب درجہ ہوتی ہے بلکہ محقیقین کے نزدیک تو مشاہدہ بواسطہ من وجہ زیادہ کامل