ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
کہ گوشت کو قیمہ کیا جائے اور پھر قیمہ کوپیسا جائے اور پھر اس کا آبجوش نکالا جائے تو چونکہ اس قید میں بکھیڑے بہت ہیں اگر اس ترکیب سے آبجوش میں قوت بڑھ بھی گئی تو اس کے تصور سے طبیعت گھبراتی ہے اور بجائے انشراح کے اس میں انتباض کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے یہ ہے مذاق میرا غرض اختصار آزادی اور سہولت میری فطرت ہے مگر یہ جب ہی جب کہ ضرورت نہ ہو ان کے اضداد کی اب موت سے زیادہ کیا مضر چیز ہوگی لیکن چونکہ وہ ضروری چیز ہے اس لئے ہر مومن کو آمادہ رہنا چاہیے البتہ جو واقعی مضر چیزیں ہوں اور ان میں توسع کی کوئی گجنائش نہ ہو تو میں کوئی بچہ تو ہوں نہیں عمر بھر لے لئے ایسی چیزوں کو چھوڑ سکتا ہوں لیکن اگر ضرورت سے زیادہ مقید کردیا جائے اور جس میں گنجائش ہو اس کی بھی اجازت نہ دی جائے تو پھر البتہ میری طبیعت پراتنا بار پڑتا ہے کہ پھر وہ بالکل ہی معطل ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ معالجہ سابقہ میں تقیدات کامیری طبیعت پر اتنا دباؤ پڑا کہ اس زمانہ میں سوچنے سے بھی اپنی مرغوبات کا مرغوب ہونا محسوس نہ ہوتا تھا اب ان قیود کے اٹھ جانے کے بعد پھر محسوس ہونے لگا کہ فلاں فلاں چیز مرغوب ہے اور اب طبیعت کھل گئی اور اپنی مرغوبات یاد آنے لگیں ۔ پھر فرمایا کہ میں ضوری قیود سے گھبراتا نہیں لیکن غیر ضروری تعب بھی برداشت نہیں۔میں کہتا ہوں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون عالی ہمت ہے یا ہو سکتا ہے ۔ آپ کی عالی ہمتی کے سامنے تو پہاڑ بھی ریت ہے مگر حضور کا معمول شریف حدیث میں موجود ہے کہ جب آپ کو دوشقوں میں اخیتار دیا جاتا آپ ان میں سے جو سہل شق ہوتی اس کو اختیار فرماتے ۔ اس کا ایک تو منشاء ہے اور ایک ناشی ۔ منشاء تو یہ ہے آسان شق کی اختیار کرنا فطرت سلامت سے پیدا ہوتا ہے چونکہ حضور کی فطرت کے کامل سلیم ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے اس لئے حضور کو جب دو شقوں کا اخیتار دیا جاتا تھا تو آسان شق ہی کو اختیار فرماتے تھے ۔ یہ تو منشاء ہوا ۔ اور ایک اس سے ناشی ہے وہ یہ کہ اس میں امت کی رعایت ہے اگر حضور دشوار کرنے میں بھی امت متبع سنت ہے ۔ اب ہم سہولت کے باوجود اپنی راحت کے لئے اخیتار کرتے ہیں مگر پھر بھی متبع سنت ہیں یہ تو امور اختیاریہ میں ہے کہ آپ نے قصدا سہولت کو اختیار فرمایا تاکہ امت سہولت کے اختیار کرنے میں بھی متبع سنت رہے اب امور