ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
بھروسہ پر جرات کی جائے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ مختلف سالکوں کے ساتھ مختلف معاملہ ہوتا ہے ۔ بڑی باتوں پر بھی بعضوں سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور بعضوں سے گرفت ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ ایک بار حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ نے ناز میں آکر اللہ تعالی کی شان میں ایک خاص کلمہ دما دیا ۔ ( اور وہ مجھے معلوم ہے مگر میری زبان سے نکل نہیں سکتا ) کسی نے وہ کلمہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے سامنے نقل کردیا ۔ سن کر بحیرت پوچھا کہ کیا یہ فرمایا کہا جی ہاں ۔ فرمایا کہ یہ انہیں کا درجہ ہے جو سن لیا گیا ہم ہوتے تو کان پکڑ کر نکل دئیے جاتے ۔بات یہ ہے کہ بعضوں کا درجہ اولال اور ناز کا ہوتاہے اس میں وہ معذور سمجھتے جاتے ہیں مگر عام طور پر تو عارفین کی یہی تعلیم ہے کہ پیش یوسف نازش وخوبی مکن جز نیاز وآہ یعقوبی مکن ناز راروے بباید ہمجو درد چوں نداری گرد بدخوئی مگرد زشت باشد روے نازیبا وناز عیب باشد چشم نابینا وباز چوں تو یوسف نیستی یعقوب باش ہمچو اوبا گریہ وآشوب باش یہ تو اہل کمال کے حالات ہیں باقی مدعیوں کی حالت عجیب ہے کہ مخلوق کا تو کچھ ادب بھی کرتے ہیں لیکن حق تعالٰی کے جناب میں سراسر گستاخی ہیں اور اس کو ناز سمجھتے ہیں اور اہل حال کے نقال بنتے ہیں ۔ دیکھئے تیرے کے مسئلہ میں کتنا شورو غل مچا ہوا ہے اور کتنی ناگواری اس پر ظاہر کی جاتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے لیکن ہی یہ بھی سوال ہے کہ ( نعوذ باللہ ) خدا تعالی کی عظمت حضرات صحابہ کی عظمت سے بھی کم ہے اگر وہاں کوئی گستاخی کرے تب تو اتنا ناگوار ہو اور اگر اللہ تعالی کی شان کے خلاف کوئی کلمہ کہہ دے تو دل پر چوٹ بھی نہ لگے ۔ اگر آپ بھتگی سے کہیں کہ ارے بھائی جھاڑو دے دو اور کوئی آپ س پوچھے کہ کیا آپ بھنگی کے بھائی ہیں تو آپ ہی کہئے کہ آپ کے دل پر کیا گزرے حالانکہ وہ آُپ کا ایک رشتہ سے بھائی ہے بھی کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں آپ بھی ہیں وہ بھی ۔ تو اپنا تو اتنا ادب اور حق تعالی کا کچھ بھی نہیں اجی حضرت اللہ تعالی کا تو اتنا ادب ہے کہ اس کو بعض اوصاف کمال سے موصوف کرنا بھی بدون اذن شرعی جائز نہیں چنانچہ ان کو حکیم کہنا جائز ہے طبیب کہنا جائز نہیں ۔ اسی طرح رحیم کہنا جائز ہے شفیق کہنا جائز نہیں کیونکہ شاید یہ اوصاف باوجود اوصاف