ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
تفسیر میری سمجھ آئی سار غبار دو ہوگیا ۔ اور یہ تفصیل معلوم ہوگئی کہ مقاصد شرعیہ میں تو بدنامی کا کچھ خیال نہ کیا جائے اور غیر مقاصد میں بدنامی سے بچتا ہی مناسب اور سنت کے موافق ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہرشے اپنے گل محل پر ہونی چاہیے حکیم وہی ہے جو کرتہ کو کرتہ کی جگہ پہنے اور پاجامہ کو پاجامہ کی جگہ پہنے یوں تو بدن ڈھکنے کے لئے اگر کرتہ کی جگہ پاجامہ اور پاجامہ کی جگہ کرتہ بھی پہن لیں ۔ اس طرح کہ بڑۓ بڑے پائنچے اور بڑی بڑٰی آستینیں بنالیں تب بھی جو اصل مقصود ہے یعنی بدن ڈھک جانا وہ تواس صورت میں بھی حاصل ہوجائے گا لیکن اپنے ذوق سے دیکھ لیجئے کہ کوئی کتناہی حکیم اور کریم ہو اور سادہ مزاج ہو کیا اس وضع کو پسند کرتا ہے ہرگز نہیں ۔ تو آخر اس میں اور تواضع کی سادہ نہیں وضع میں فرق کیا ہے ۔ پس فرق یہی ہے کہ گو بدن تو اس طرح پہننے میں بھی ڈھک گیا لیکن یہ دونوں چیزیں بے محل ہویئں ۔ مشہور ہے ناکہ کوئی بزرگ تھے ان کی شادی ہوئی پہلی شب تھی کپڑے کیوں نہ اتارے جاتے علی الصباح جو اٹھ کر وہ باہر آنے لگے تو اندھیرے میں غلطی سے عمامہ سمجھ کر بیوی کا پاجامہ سر سے لپیٹ لیا ۔ باہر نکلے تو بڑا مخول کہنے کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو غرض عمامہ کی ہے وہ پاجامہ سے بھی حاصل ہوگئی خصوص جب عمامہ اور پاجامہ دونوں کے اخیر میں مہ مہ ہے پھر اس اس میں مخول کی کیا بات تھی بس بات ہی ہے کہ گو پاجامہ بھی عمامہ کا کام دے سکتا ہے لیکن وہ سر پر باندھنے کے لئے موزون نہیں ہے بلکہ ٹانگوں میں پہننے کے لئے موزوں ہے لہذا پاجامہ کو عمامہ کی جگہ استعمال نہ کرنا نہ موزون ہوا اور نہ نا موزونیت صرف اہل دنیا ہی کے نزدیک نہیں بلک اہل دین کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہے ہمارے ماموں صاحب حیدر آبادی نے موزونیت کے مطلوب ہونے پر ایک عجیب استدلال کیا تھا بس عمر بھر میں ان کا یہ استدلال تو مجھے بہت پسند آیا باقی اور باتیں سب مخدوش تھیں جس کی وجہ یہ تھی کہ ذہین بہت تھے نظر کم تھی طبیعت میں آزادی اور بے باکی تھی پھر اس پر مغلوب الحال اس لئے ان کی اکثر باتیں حدود سے نکلی ہوئی ہوتی تھیں ۔ سو جو ان کا استدلال مجھ کو پسند آیا وہ اسی کی تائید مطلوبیت میں ہے ۔ فرماتے تھے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا حضرت داود علیہ السلامسے ارشاد ہے والنالہ الحدید ان اعمل سابغات وقدرفی السرد واعملوا صالحا یعنی زر ہیں بناؤ پوری پوری اور اس طرح کہ کڑیوں میں اندازہ رہے کوئی بڑی کوئی چھوٹی نہ ہو ۔ دیکھئے اگر کڑیاں