ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کرنے کی اجازت ہے اور کوئی ایسا ہے کہ جو باوجود بدنامی کے خوف کے بھی مامور بہ ہے ۔ یہ تحقیق حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ۔ فرماتے تھے کہ ان دونوں عملوں میں خواہ کسی کو یہ معلوم نہ کہ کیا فرق ہے لیکن اجمالا اتنا معلوم ہوگیا کہ فرق ضرور ہے پس ایسے موقعوں پر فرق سمجھنا نہ حکیم کا کام ہے پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ فرق اللہ کا شکر ہے میرے ذہن میں آگیا ۔ وہ یہ کام کہ حطیم کا داخل کعبہ کرنا تو کوئی حکم شرعی مقصود بالذات نہیں ۔ اگر سارے کعبہ کی عمارت بھی بے نشان ہو جاوے تب بھی کسی شرعی مقصود میں اس سے کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ۔ اگر حطیم کعبہ نہیں ہوا تب بھی اس بقعہ کی فضیلت اور حکم تو وہی ہے جو داخل ہونے کی حالت میں ہے ۔ بس اس کے داخل نہ ہونے سے کون سا مقصود شرعی فوت ہوگیا اور یہاں حضرت زینب کے ساتھ نکاح کرنا تبلیغ کا ایک فرد عظیم ہونے کے سبب ایک مقصود شرعی ہے جس کا حاصل ایک عملی فتوی بتانا ہے کہ متبنی کی بیوی سے نکاح جائز ہے اور اس عام خیال کا تغلیظ ہے کہ متبنی مثل حقیقی بیٹے ہی کے ہے لہذا جو عورت اس نکاح میں رہ چکی ہو اس کے ساتھ نکاح ناجائز ہے ۔ غرض اس حکم شرعی کی عملی تبلیغ تھی جو سخت ضروری ہے کیونکہ تبلیغ زبانی سے عملی تبلیغ زیادہ راسخ ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس نکاح میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو تبلیغ کرائی اور ارشاد فرمایا کہ تم خود نکاح کر کے دکھلا دو اور بکنے دو لوگوں کو یہاں ایک استطراری نکتہ ہے وہ یہ کوئی جہاں حضرت زینب کے نکاح کا ذکر ہے وہاں اس عنوان سے ذکر ہے وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ کہ آپ لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ دیکھئے اگر حضور صاحب وحی نہ ہوتے اور نعوذ باللہ کلام اللہ حضور ہی کا بنایا ہوا ہوتا تو قرآن میں تخشی الناس یہ اتو اچھا خاصا الزام ہے کہ تم لوگوں سے ڈرتے ہو جو دلیل ہے کمزوری کی اب یہ سوال رہا کہ جب یہ تبلیغ تھی جس میں انبیاء نیہں ڈرے پھر آپ کیوں ڈرے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو اولا اس کی تبلیغ ہونے کی طرف التفات نہ ہوا تھا جب معلوم ہوا پھر تو آپ بلا خوف ملامت اس پر عامل ہوگئے ۔ اس لطیف ربط اور تفسیر پر کسی صاحب نے عرض کیا کہ سبحان اللہ کلام مجید کو حضرت نے کیا خوف سمجھا ہے ۔ فرمایا کہ میں نے کیا سمجھا ہے ۔ اللہ جسے سمجھا دے ۔ جس روز یہ