ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
اللہ نے جیسے کبر سے محفوظ رکھا ہے عرفی تواضع سے بھی محفوظ رکھا ہے ۔ ایسی تواضع میں طالبین کا ضرر ہے ۔ اگر ہر مالدار یہی کہے کہ میں مفلس ہوں تو جو حاجت مند ہیں وہ کہاں جائیں اور کس کے سامنے اپنی حاجت پیش کریں ۔ یہ نہیں چاہئے بلکہ اگر کوئی اپنی ضرورت زائد مال رکھتا ہو اور اس کے پاس کوئی حاجتمند آئے تو بجائے اس کے کہ یوں کہے کہ میں مفلس ہوں یہ کہے کہ میں گو قارون کے برابر تو نہیں لیکن اللہ کا شکر ہے تیری خدمت کے لائق میرے پاس مال موجود ہے خود حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مالدار آدمی کو میلے کچلیے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ کیا ہیبت بنا رکھی ہے ۔ اللہ تعالٰی پسند فرماتے ہیں کہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھیں ۔ جب خدا نے پہنے کھانے کو دیا ہے تو پہنو کھاؤ اس میں یہ مصلحت بھی ہے کہ حاجت مندوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ موقعے ہی حاجت پیش کرنے کے نہیں تو بیچاروں کو کیا معلوم ہو کہ کس کے سامنے اپنی حاجت پیش کریں غرض میں نے کہا کہ ان کی خدمت کے لائق تو میں بھی ہوں اور آپ بھی لیکن اس طریق میں شرط نفع مناسبت ا ہے اور مناسبت ان کو جیسی آپ سے ہے مجھ سے نہیں ۔ کیونکہ آپ بھی خادم قوم ہیں یہ بھی خادم قوم اور میں ہوں نادم قوم غرض میں نے دونوں کا ٹال دیا ۔ بعض لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ پہلے تمہارے اکابر میں اتنا تشدد نہ تھا ۔ میں اس کا یہ جواب دیتا ہوں کہ پہلے اصاغر میں اتنی خود رائی بھی نہ تھی ۔ اس پر مامون الرشید کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ سب جانتے ہیں کہ مامون الرشید کی سلطنت تھی ۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ بڑا حلیم اور خوش اخلاق بادشاہ تھا یہاں تک کہ اس کی خوش اخلاقی اور حلیم کیوجہ سے اس کے غلام تک اس کے ساتھ گستاخی کا برتاؤ کرتے تھے لیکن اس کو غصہ نہیں آتا تھا ۔ اس لئے لوگ عموما دلیر ہوگئے تھے کسی نے اس سے کہا کہ آپ نائب ہیں خلفائے راشدین کے کیونکہ وہی سلسلہ ہے سلطنت کا جواب تک چلا آرہا ہے ۔ ان حضرات کے یہاں نہ یہ حشم خدم تھے نہ یہ ساز سامان نہ کوئی چاوش نہ نقیب غرض بالکل سادگی تھی ۔ مامون الرشید نے اپنے افعال کی تاویل نہیں کی بلکہ ایک عجیب جواب دیا ۔ کہا کہ تم نے حضرات خلفائے راشدین کے زمانہ کے خواص کو تو دیکھا مگر یہ نہ دیکھا کہ اس زمانہ کے عوام بھی تو ایسے تھے جیسے ابو ہریرہ ۔ مقداد انس اور فلاں اور فلاں ۔ اگر تم لوگ اس زمانہ کے عوام