ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
وہ اپنی رائے کو حضور کی رائے مبارک پر مقدم کرتے ہیں ۔ اھ پھر حضرت اقدس مد ظلہم العالی نے فرمایا کہ دیکھئے اب ہر ایک کا تو کام نہیں اس تعبیر کا سمجھ جانا ۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہ مین ایک شخص نے بڑا وحشتاک خواب دیکھا کہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ وہ قرآن شریف پر پیشاب کررہاہے آپ نے فرمایا کہ یہ بہت مبارک خواب ہے ۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان شاء للہ تعالٰٰی تہمارے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ حافظ ہوگا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہو اکہ اس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ حافظ ہوگیا ۔ اب دیکھئے یہ خواب ظاہر میں تو نامبارک تھا مگر حقیقت میں مبارک تھا اور ندوہ والوں کا خواب بظاہر ہر مبارک تھا مگر درااصل نامبارک تھا ۔ یہ تعبیر تو ایک مستقل ہی فن ہے ۔ اس میں بزرگی کا بھی کوئی دخل نہیں بلکہ اس فن سے مناسبت کے لئے تو ایمان کی بھی شرط نہیں چنانچہ ابو جہل کو فن تعبیر سے بہت مناسبت تھی اور وہ بڑا معبر تھا ۔ اس فن کا مدار فطری مناسبت پر ہے اور وہ کسی کو حاصل ہے کسی کو نہیں چنانچہ مجھ کو نہیں ہے اس لئے میں نے یہ سستا نسخہ نکال رکھا ہے کہ جو شخص خواب لکھ کر مجھ سے تعبیر پوچھتا ہے میں اکثر یہ شعر لکھ دیتا ہوں نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم چو غلام آفتابم ہمہ زآفتاب گویم خواب میں تو اگر یہ بھی دیکھے کہ سور کا گوشت کھارہاہوں یا جنہم میں جل رہا ہوں مگر جب اٹھا تو اپنے اندر کوئی کام قصدا خلاف شرع نہیں پایا تو وہ خواب مطلق منکر اور علامت قبیح نہیں ۔ اور اگر خواب میں یہ دیکھے کہ میں جنت میں ہوں حوروں سے مشغول ہوں اللہ کا دیدار ہورہا ہے مگر آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سنت کے خلاف امور میں مشغول ہے یا معصیت میں مبتلا ہے تو وہ مبارک خواب بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ اعتبار بیداری کی حالت کا ہے جو اختیاری ہے نہ کہ خواب کی حالت کا جو غیر اختیاری ہے حضرت شیخ اکبر رحمتہ للہ علیہ کی تو یہ تحقیق ہے کہ اچھے لوگوں کو اکثر برے خواب نظر آتے ہیں کیونکہ مستضر رہتے ہیں اور آدمی خواب میں اکثر وہی باتیں دیکھتا ہے جو اس کے دل میں اکثر مستحضر رہتی ہوں ۔ غرض خواب کسی حالت کی علت نہیں ایک قسم کی علامت ہے بیداری کی حالت کی اور علامت کبھی صحیح ہوتی ہے کبھی غلط اس لئے جس چیز کی وہ علامت ہے اس کی حقیقت