ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کہ واقعی حکیم ہیں یہ حضرت ہزاروں رقم سے تو مستغنی اور تین آنہ کے لئے سائل چنانچہ ایک بہت بڑی رقم کسی تاجر کے ذریعے سے حضرت حاجی صاحب کے لئے ہندوستان سے بذریعہ حوالہ آئی اور بھجنے والے نے حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں بھی خط لکھ دیا کہ اتنی رقم نذرانہ کے لئے بھیجی گئی ہے فلاں دوکاندار کے یہاں سے وہ رقم منگوا لی جائے مگر حضرت حاجی صاحب نے اپنا کوئی آدمی دوکان دار کے پاس نہیں بھیجا آخر اسی نے کئی روز انتظار کرنے کے بعد کہلا بھیجا کہ آپ کے لئے اتنی رقم ہندوستان سے آئی ہے کوئی آدمی بھیج دیجئے ۔ اس پر حضرت حاجی صاحب نے نہایت استغناء کے ساتھ فرمایا کہ جس خدا نے ہندوستان سے مکہ تک وہ رقم بھجوادے گا کوئی آدمی لینے نہیں آوے گا بس پھر اس دوکاندار نے جھک مار کر خود ہی وہ رقم بھیج دی نواب محمود علی خاں صاحب رئیس چھتاری جو حضرت حاجی صاحب سے خاص عقیدت رکھتے تھے ہجرت کی نیت سے مکہ معظمہ حاضر ہوئے تھے پھر ریاست کے انتظام کے لئے ہندوستان آنا پڑا چونکہ پھر واپسی کا قصد تھا اس لئے جو رقم ضروریات سے زائد تھی وہ بطور امانت کے حضرت حاجی صاحب کے بھیتجے حافظ احمد حسن صاحب امین الحجاج کے پاس رکھوادی نواب صاحب کو اتفاقا واپسی میں زیادہ دیر ہوگئی جانتے تھے کہ حضرت محض توکل پر ہیں حج کے دنوں میں جو لوگ پہنچ جاتے تھے وہ اپنی سعادت سمج کر ہدیہ کچھ پیش کردیتے تھے اسی سے کام چلتا تھا اس لئے حضرت حاجی صاحب کو لکھا کہ جو امانت رکھی ہوئی ہے اس کو اپنا مال سمجھ کر جتنی ضرورت ہوا کرے بے تکلف اپنے صرف میں لے آیا کیجئے کیونکہ جو کچھ ہمارا مال ومتاع ہے وہ سب حضرت ہی کا ہے اور سب حضرت پرقربان ہے حضرت حاجی صاحب نے لکھا کہ ہمارے بزرگوں کا یہ طریق نہیں ۔ اجازت سے بھی کسی کی چیز میں خود تصرف نہیں کرتے یوں اپنے ہاتھوں سے کوئی محب کچھ دے دے تو اس کے لئے میں عذر نہیں لیکن امانت میں ہم تصرف نہ کریں گے اگرچہ باذن ہو ۔ صاف انکار کر دیا ۔ یہ چیزیں ہیں جن میں ضرورت ہے مشائخ کی ۔ کتابوں میں یہ جزئیات کہاں اس لئے کتابیں اصلاح کے لئے کافی نہیں ۔ ناواقف کہتے ہیں کہ کتابوں میں سب کچھ موجود ہے جو پڑھا لکھا آدمی ہے اس کے لئے شیخ کی کیا ضرورت ہے ۔ کتابوں میں سب باتیں موجود ہیں بس انہیں پر عمل کرتا رہے ۔ اس پر میں کہتا ہوں کہ ان کے کافی نہ ہونے کی موٹی مثال یہ ہے کہ طب کی