ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
جواب ۔ حکم مذکوراکثری ہے اور ایسے التباس کا سبب ہونا یہ کبھی کبھی لطافت کی وجہ سے ہوتا ہے کہ بلاضطرار مختلف اشیاء کا حضور طبعا موجب التباس ہوجاتا ہے پس کوئی تعارض نہیں رہا ۔ پھر فرمایا اس قسم کی تدقیقات درسیات میں کہاں لکھی ہوئیں ہیں ۔ اسی واسطے تو میں کہتا ہوں کہ محض اصطلاحات سے کیا ہوتا ہے کسی محقق کی جوتیاں سیدھی کرنے سے علم حاصل ہوتا ہے ۔ ایک ایسی ہی تدقیق اوریاد آئی ۔ یہاں ایک صاحب ائے تھے وہ غیر مقلد تھے اور ایسے بے باک تھے کہ آنے سے قبل مجھ کو لکھا تھا کہ میں جانچ کرنے کے لئے آرہا ہوں ۔ میں نے دل میں کہا کہ جانچ کرنے کے لئے کیوں آرہے ہیں میں نے دعوٰی کیا ہے کسی کمال کا ۔ غرض وہ آئے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میرے پاس ایک شخص آیا اس نے مجھ سے پوچھا کہ مجھ پر نفسانی خواہش کا غلبہ ہے جو ان آدمی تھے نکاح کی وسعت نہیں تھی مجھ سے پوچھا کہ ایسی حالت میں میں کیا کروں ۔ میں نے ابھی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ آپ بولے روزے رکھا کرو وحدیث میں اس کایہی علاج بتلایا گیا ہے ۔ اس نے کہا کہ میں نے روزے بھی رکھے مگر ان سے بھی کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔ بس وہ ختم ہوگئے ۔ میں نے دل میں کہا کہ آپ کو کہا کس نے تھا دخل دینے کو جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا تب میں نے اس شخص سے سوال کیا کہ تم نے کتنے روزے رکھے تھے اس نے کہا کہ جی کبھی دو تین رکھ لئے کبھی چار پانچ رکھ لئے میں نے کہا کہ حدیث میں ہیے فمن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء ۔ یہ میں نے ان کے کے سنانے کو کہا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت سے روزے رکھنا اور مسلسل روزے رکھنا گا ایسے حال میں مفید ہوتا ہے ۔ نہ کہ صرف گاہ گاہ دو چار روزے رکھ لینا ۔ اب ان کو حیرت تھی کہ حدیث میں تو کثرت کا کہیں ذکر نہیں اس لئے میں نے کہا کہ علیہ لزوم پر دال ہے اور لزوم کے دو درجہ ہوتے ہیں ایک اعتقادی ایک عملی ۔ یہاں اعتقادی درجہ تومراد ہے نہیں کیونکہ یہ روزے فرض نہیں بلکہ عملی درجہ مراد ہے اور وہ ہوتا ہے تکرار سے جب کہ بار بار عمل کیا جاوے اور عادۃ لازم کرلیا جائے ۔ اور میں نے کہا کہ دیکھو اس کی ایک ظاہر تائید ہے رمضان شریف میں مسلسل ایک مہینہ تک روزے رکھے جاتے ہیں اور یہ تجربہ ہے کہ شروع رمضان تو قوت بہمیہیہ شکستہ نہیں ہوتی بلکہ رطوبات فضلیہ کے سوخت ہوجانے کی وجہ سے اس قوت میں اور اشغاش ہوتا ہے ۔ پھر رفتہ رفتہ ضعف بڑھتا جاتا ہے یہاں تک