ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
حضرت موسی علیہ السلام تو غصہ میں بھرے ہوئے تھے آُپ نے پتھر پر اپنا عصا مارا یہاں تک کہ حدیث شریف میں ایا ہے کہ اس پر نشان پڑگیا اور غصہ میں اس طرف بھی خیال نہیں گیا کہ بنی اسرائیل کھڑے دیکھ رہے ہیں غرض سارے بنی اسرائیل کو اللہ تعالٰی نے دکھایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جسم میں کوئی عیب نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں ۔ فبراء اللہ مما قالو ا تو اللہ نے ان مجذوبوں کی اس خاص حالت کی بھی اصل قائم فرمادی حضرت موسٰی علیہ السلام کا یہ واقعہ مجذوبوں کے واقعہ سے مشابہ ہے کیونکہ یہ دونوں واقعے اضطراری ہیں لیجئے مجذوبوں کی عریانی کی بھی اصل میں نے تلاش کرلی ۔ اسی لئے تو بعضے غیر مقلد مجھ سے خفا ہیں چنانچہ ایک غیر مقلد نے مجھے یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ تم شرالقرون کے اولیاء کے اقوال وافعال کی بھی تاویل اور حمایت کرتے ہو ۔ میں کہتا ہوں کہ محض شراالقرون میں ہونے سے تو شرہونالازم نہیں اتا ۔ بہر حال حضرت سرمد رحمتہ اللہ علیہ عالم گیر کو لکھ کر بھیج دیا کہ آنکس کہ ترا تاج جہانبانی داد مارا ہمہ اسباب پریشانی داد پوشاند لباس اس ہر کراعیے دید بے عیباں را لباس عریانی داد لیکن جب تحقیقات کے بعد شریعت کا فتویٰٰ ہوگیا تو حضرت عالم گیر رحمتہ اللہ علیہ نے شریعت پر عمل فرمایا اور ادھر آکر حضرت سرمد رحمتہ اللہ علیہ معذور تھے تو ادھر حضرت عالم گیر رحمتہ اللہ علیہ بھی معذور تھے ۔ واقعی اگر کوئی مصلحت نہ ہوتی تو دوسری بات تھی لیکن یہاں تو بڑی مصلحت تھی ۔ اس سے بڑھ کر کیا مصلحت ہوگی کہ شرعی فتوٰی کے موافق عمل کیا گیا ۔ غرض دونوں معذور تھے ۔ جیسے دونوں مقابل کے مقبول ہونے ایک نظیر بھی ہے وہ یہ کہ کسی مسلمان کا قاتل مسلمان ہوجائے تو دونوں جنت میں جائیں گے قاتل بھی اور مقتول بھی ۔ یہ سب اسرار ہیں اللہ تعالیٰ کے ان کے اسرار کا کون احاطہ کرسکتا ہے غرض نہ حضرت سرمد رحمتہ اللہ علیہ پر کوئی اعتراض کرنا چاہیے نہ حضرت عالم گیر رحمتہ اللہ علیہ پر درنیا بد حال پختہ ہیچ خام پس سخن کو تاہ باید والسلام البتہ اتباع شریعت بہرحال ضروری ہے ۔ میرے حیدر آباد ماموں صاحب گو ایک آزاد درویش تھے لیکن ان کی باتیں بڑی حکیمانہ ہوتی تھیں ۔ مولانا محمد حیسن صاحب الہ آبادی نے