ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
میں خلل پڑتا ۔ بعض لاہور والوں نے برا بھی مانا یہاں تک کہ لوگ اخباروں میں بھی اس کی شکایت چھاپنے کو تھے غرض پنجاب میں میںایک مسئلہ مختلف فیہ ہوگیا لاہور والے تو سمجھے کہ بڑا بد خلق ہے اور امرتسر والے سمجھے کہ بڑا خلق ہے یاد پڑتا ہے کہ امرت سر میں میں نے یہ جواب دیا تھا وہاں اس وقت علماء کا مجمع تھا سب نے بہت پسند کیا اور یہ فیض بھی خود عبداللہ بن سہل ہی کا تھا کیونکہ مجھے اولیاء اللہ سے محبت ہے اور اولیاء اللہ سے جو محبت ہوتی ہے تو ان سے برکات حاصل ہوتے ہیں اگر حضرت عبداللہ سے مجھے محبت نہ ہوتی تو مجھے ان کی طرف سے جواب دینے کی اتنی نہ ہوتی میرے دل نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان کی طرف سے جواب نہ ہو کیونکہ وہ ایسے نہیں تھے کہ لا جواب ہوجاویں اس ادب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جواب ذہن میں ڈال دیا اور ادب بڑی برکت کی چیز ہے اور بے ادبی اس طریق میں سخت وبال لاتی ہے ۔ چنانچہ حسین بن منصور پر جو بلا آئی وہ اسی قلت ادب کی وجہ سے اور گو وہ مغلوب تھے اسی لئے حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کی حمایت فرماتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ۔ چوں قلم در دست غدارے فتاد لاجرم منصور بردارے فتاد اور یہاں غدار سے مراد اہل فتوی نہیں ورنہ غدار ان ہوتا بلکہ خاص ایک وزیر ہے جس نے استفسار کرکے سزا کا حکم نافذ کیا اس کا واقعہ تاریخ میں لکھا ہے کہ علقمی وزیران کا دشمن تھا ۔ اس نے خود ساختہ سوال کرکے فتویٰ حاصل کیا تھا اور اسی مغلوبیت کی وجہ سے حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ فرماتے تھے کہ میں اگر ہوتا تو کبھی فتویٰ منصور کے خلاف نہ ہونے دیتا انا الحق کی یہ تاویل کرتا کہ اس سے مراد ہے کہ انا علی الحق یہ تو مولانا کی تاویل ہے ۔ اور میں نے ایک اور تاویل کی ہے وہ یہ کہ عقائد کا یہ مسلم مسلئہ ہے کہ حقائق الاشیاء ثابتہ تو انا الحق کے معنی یہ ہوئے کہ انا ثابتہ یعنی میں بھی من جملہ اشیاء کے ایک شی ہوں یعنی چونکہ حقائق اشیاء ثابت ہیں میرا وجود بھی حق یعنی ثابت اور مطابق واقع کے اور موجود ہے تو یہ گویا سو فسطائی کے مسلک کا رد ہے کیونکہ وہ لوگ اس عالم کو بالکل ایک عالم خیال سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں کچھ ہے ہی نہیں اور یہ جو کچھ ہم کو نظر آتاہے یہ محض وہم اور خیال ہے اور یوں تو وحدۃ الوجود والے بھی یہی کہتے ہیں مگر اس کے اور معنی ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسا اللہ تعالٰٰی کا وجود ہے ویسا ہمارا وجود نہیں ہے مگر جیسا بھی ہے ۔ وجود واقعی ہے بخلاف سو فسطائی کے کہ وہ وجود