ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
نکال لیں تو خبر نہ ہو ۔ جانے کہاں سے یہ درجہ گھڑلیا ہے ۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کس کی نماز کامل اور باخشوع ہوسکتی ہے لیکن ایسا استغراق تو حضور کی بھی نہ ہوتا تھا ۔ حضور خود فرماتے ہیں کہ بعض اوقات نماز میں طویل قرات کا قصد کرتا ہوں لیکن جب کسی بچہ کے رونے کی آواز نماز میں سنتا ہوں تو اس خیال سے کہ کہیں اس کی ماں جماعت میں شریک نہ ہو بڑی سورۃ کی بجائے چھوٹی سورت پڑھتا ہوں تاکہ اس کی ماں جلدی سے فارغ ہوکر اس کو جاکر سنبھال لے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور کو نماز میں ایسا استغراق نہ ہوتا تھا ۔ استفسار پر فرمایا کہ نماز میں سہواسی استغراق کی کمی سے ہوتا ہے پھر فرمایا کہ اس کے متعلق ایک عجیب وغریب نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات میرے ہی ذہن میں آئی ہوگی اس وقت لکھ دیا پھر بھول گیا غرض بجائے اس کے علوم درسیہ میں کمال حاصل کرنے کی فکر میں رہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت بڑھادے جو ان کمالات کو بڑھاتا ہے وہ ضابطہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور نجات ہوتی ہے رابطہ سے اسی کی کوشش کرے اور اسی کو مانگے ہم جاہل سہی بدعقل سہی مگر اس حال میں بھی ہمیں خدا سے مانگنا چاہیے کیونکہ ہم چاہے جیسے بدحال ہوں شیطان سے تو زیادہ بدحال نہیں اس نے باوجود اس درجہ حال ہونے کے بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا تو ہم کیون نہ مانگیں ہم تو الحمداللہ مومن ہیں چاہیے ایمان ضعیف ہی ہو جو ولایت عامہ کے لئے کافی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے ۔ اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمت الی النور دیکھئے اس میں قید عملوا الصحت کی بھی نہیں ہے البتہ دوسری آیت میں ولا یتہ خاصہ کا ذکر ہے الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون الذین امنوا وکانو ا یتقون اس ولایت میں تقوٰی کی بھی ضرورت ہے ۔ اور یوں تو اللہ تعالی کی تکوینی رحمت کفار بھی ہے یہاں تک کہ ان کی حفاظت کے لئے ملائکہ متعین ہیں لیکن اس کو ولایت نیہں کہتے اور یہ رحمت صرف کفار کے ساتھ یہاں دنیا میں ہے باقی وہاں آخرت میں نہیں ہوگی ۔ دنیا میں اس رحمت کے عام اور آخرت میں خاص ہونے پر استطرادا ایک مناظرہ یاد آگیا جو شیطان نے ایک بڑے عارف یعنی غالبا حضرت عبداللہ بن سہل سے کیا تھا اور ان کو اس مناظرہ میں شیطان نے ساکت کردیا تھا اس بناء پر حضرت عبداللہ نے یہ وصیت فرما دی ہے کہ شیطان سے کبھی کوئی مناظرہ نہ کرے واقعہ یہ ہے کہ شیطان نے حضرت