ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کو اڑا دیتاہے اور اگر نہ بھی اڑائے تب بھی اس سے قرب شاہی میں کیا خلل پڑتا ہے ۔ ہاں بادشاہ کی اجازت ہے کہ اگر مکھیاں بہت ستایئس تو اڑا دو اور اگر نہ اڑاؤ تو اس کی بھی اجازت ہے ۔ سو اگر کوئی مقرب شاہی مکھیاں اڑاتا ہے وہ اپنی تکلیف کے لئے ان کو دفع کرتا ہے اور بادشاہ کی طرف سے اس کی ممانعت نہیں لیکن بادشاہ کی طرف سے اس کے ذمہ مکھیوں کا فعہ کرنا واجب بھی نہیں کیونکہ وہ قرب شاہی میں خلل انداز نہیں بلکہ اگر مکھیوں کو دفع نہ کرے تو یہ بادشاہ کے نزدیک زیادہ قابل قدر ہے کہ مکھیاں لپٹ رہی ہیں اور یہ پھر بھی بادشاہ کی طرف توجہ کئے بیٹھا ہوا ہے اور توجہ میں بالکل فرق نہیں ۔ تو یہ تو بڑی قدر کی بات ہے کہ اتنی چیزیں پریشان کرنے والی ہیں مگر توجہ میں ذرا فرق نہیں ۔ یہ حقیقت احکام کی مگر ناواقفی کی وجہ سے بعضے لوگ اس سے پریشان ہوجاتے ہیں اور یہ ساری خرابی اس کی ہے کہ لوگوں نے وساوس کا درجہ نہیں سمجھا ۔ وساوس کو معاصی کے درجہ میں سمجھ رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ اصولی غلطی ہے اگر ایسا سمجھے تو قرآن کو غلط سمجھے گا جس تصریح ہے لایکلف اللہ نفسا لاوسعہا حدیث کو غلط سمجھے گا جس میں تصریح ہے ان اللہ تجاوز الامتی مالکم تکلم او تفعل وما حدثت بہ انفسہا للنسۃ لا مالکا (جمع الفوائد ) ہاں اس وقت ایک آیت یاد آئی جس سے ناواقف کو شبہ ہوسکتا ہے وہ آیت یہ ہے ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید اس سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوگیا کہ وساوس پر بھی مواخذہ ہوگا کیونکہ یہاں اللہ تعالٰٰی نے اپنا رگ جان سے بھی قرب تر ہونابیان فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ ہم وساوس تک سے بھی واقف ہیں ۔ اس سے یہ سمجھے کہ وساوس کے علم کا ذکر اسی لئے فرمایا ہے کہ ان پر مواخذہ بھی فرمائیں گے جیسا کہ جابجا ارشاد ہے یعلم ماتکسبون یعلم ماتفعلون یعلم ماتصنعون یعنی جو کچھ تم عمل کرتے ہو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور سب کا اتفاق ہے کہ اس جگہ علم کے ذکر سے مقصود یہی ہے کہ جو کچھ عمل کرتے ہو اس پر اللہ تعالٰٰی جزا وسزا دیں گے لیکن اس آیت میں یہ مراد نہیں ہے جیسا کہ سیاق وسباق کو دیکھنے سے واضح ہے ۔ چنانچہ اس سے قبل بھی بعث ونشر کا ذکر ہے ارشاد ہے افعیینا